بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ڈھاکہ میں اپنے والد شیخ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ کو سینکڑوں مظاہرین کی طرف سے آگ لگانے پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ڈھانچے کو تباہ کیا جا سکتا ہے لیکن تاریخ کو تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ان کے خلاف شروع کی گئی تحریک دراصل انہیں قتل کرنے کے لیے ہے۔
فیس بک لائیو کے ذریعے پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے کہاکہ میں بنگلہ دیش کے لوگوں سے انصاف چاہتی ہوں۔ کیا میں نے اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کیا؟ پھر اتنی توہین کیوں؟ میری بہن اور میں جو واحد یاد سے جڑے ہوئے ہیں وہ مٹ جانے کی ہے۔ ایک ڈھانچہ تباہ ہو سکتا ہے لیکن تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا۔اس دوران انہوں نے خبردار کیا کہ وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ تاریخ اپنا بدلہ لیتی ہے۔بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ ان میں اب بھی اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ قومی پرچم، آئین اور لاکھوں شہداء کی جانوں کی قیمت پر حاصل کی گئی آزادی کو بلڈوز کر کے تباہ کر دیں۔ وہ گھر گرا سکتے ہیں، لیکن تاریخ نہیں۔ انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ اپنا بدلہ لیتی ہے۔ تاریخ کو بلڈوزر سے نہیں مٹایا جا سکتا۔
مظاہرین نے شیخ حسینہ کے والد کے گھر پر حملہ کر دیا
یہ تشدد اس وقت شروع ہوا جب وہ ہندوستان میں بیٹھ کراپنے حامیوں کو آن لائن خطاب کرنے کے لیے تیار ہو گئیں۔ ان پر اپنے اقتدار کے دوران اختلاف رائے کو دبانے کا الزام لگایا گیا اور بہت سے مظاہرین کا خیال تھا کہ ان کا خطاب ان کی عوامی لیگ کی سیاسی جماعت کی طرف سے ایک ماہ طویل احتجاجی مہم کے آغاز کا اشارہ دے گا۔ لیکن مظاہرین نے خبردار کیاتھا کہ اگر حسینہ نے تقریر کی تو وہ ان کی عمارت کو تباہ کر دیں گے۔جیسے ہی حسینہ نے بولنا شروع کیا، مظاہرین نے گھر پر دھاوا بول دیا اور اس کی اینٹوں کی دیواریں توڑنا شروع کر دیں۔ بعد ازاں وہ عمارت کو گرانے کے لیے کرینیں اور ایکسویٹر لائے۔ بہت سے مظاہرین نے حسینہ کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے لگائے اور انہیں گزشتہ سال کی پرتشدد بغاوت کے دوران سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ بدامنی بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سے اب تک کی بدترین بدامنی میں سے ایک تھی۔
بھارت ایکسپریس۔