فلسطینی صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں امریکہ پر تنقید کرتے ہوئےعالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا بند کر دے تاکہ مغربی کنارے اور غزہ میں خونریزی کو روکا جا سکے ۔عباس نے کہا کہ واشنگٹن نے اسرائیل کو غزہ میں اپنی جنگ کے لیے سفارتی ڈھال اور ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ وہاں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود جاری رکھا۔ حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزارت صحت کے مطابق شہادتوں کی تعداد 41,534 ہوچکی ہے۔ محمود عباس نے کہا “یہ جرم بند کریں۔ بچوں اور عورتوں کا قتل بند کریں۔ نسل کشی بند کریں۔ اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا بند کریں۔ یہ پاگل پن جاری نہیں رہ سکتا۔
محمود عباس نے مزید کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں ہمارے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار پوری دنیا ہے۔فلسطینی صدر نے کہا کہ نیتن یاہو کی پشت پناہی میں آباد کاروں کے دہشت گرد گینگ فلسطینی زمینیوں پر قبضہ کر رہے ہیں، ہم کسی صورت فلسطینی سرزمین کو نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی برادری اسرائیل پر پابندیاں لگائے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ امریکہ کی دی ہوئی جرات سے ہی اسرائیل نے غزہ جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ عباس نے کہا کہ امریکی حمایت جاری رہے گی تو اسرائیلی حملے بھی جاری رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک امریکہ کا سلامتی کونسل میں تین بار غزہ جنگ بندی قرارداد کو روکنا بے حد افسوسناک ہے۔
وہیں دوسری جانب اسرائیل نے،جس کی دائیں بازو کی حکومت فلسطینی اتھارٹی کو تنہا کرنا چاہتی ہے عباس کی تقریر پر فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے انہیں حماس کی مذمت نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔اقوام متحدہ کے لیے اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے صدر محمود عباس کی تقریر کے جواب میں نسل کشی جیسے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ فلسطینی صدر نے 26 منٹ کی تقریر میں ایک بار بھی حماس کا نام نہیں لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ کسی پر امن حل کی بات صرف اس وقت کرتے ہیں جب وہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوتے ہیں۔اس سے بڑی کوئی اور منافقت اور جھوٹ نہیں ہو سکتا ۔ڈینن نے زور دیا کہ حماس کے خلاف اسکی کاروائیاں اسکے اپنے دفاع کیلئے ضروری ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔