Israeli aggression in Jenin: سعودی عرب نے منگل کے روز جنین شہر میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے جس کے نتیجے میں چھ فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی کارروائیوں میں اضافے کی مذمت کی گئی ہے۔ مملکت نے متاثرین کے اہل خانہ اور فلسطینی حکومت اور عوام کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔ وزارت نے اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے کی جانے والی سنگین خلاف ورزیوں کو مملکت کی جانب سے واضح طور پر مسترد کرنے کی تصدیق کی۔
اسرائیلی درندگی میں 6 فلسطینی شہید،90 زخمی
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوجی دستوں نے شمالی مغربی کنارے میں پناہ گزینوں کے کیمپ پر دھاوا بولا جس کے نتیجے میں 15 سالہ لڑکے سمیت 6 فلسطینی ہلاک جب کہ 90 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس پورے صیہونی درندگی کے نتیجے میں پہلے پانچ فلسطینیوں کی ہلاکت کی اطلاع ملی تھی، لیکن یہ تعداد اس وقت بڑھ گئی جب 48 سالہ امجد ابو جاس زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ آٹھ اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے ہیں جبکہ ایک درجن فلسطینیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بھی مملکت نے یروشلم میں مسجد اقصیٰ پر حملے کی مذمت کی تھی اور فلسطینی عوام کے تئیں سعودی عرب کے مضبوط موقف کا اعادہ کیا تھا۔
قوم پرست یہودیوں نے فلسطینیوں کو اُکسایا
آپ کو بتادیں کہ ہزاروں کی تعداد میں یہودی قوم پرست، جن میں سے کچھ “عرب مردہ آباد” اور دوسرے نعرے لگا رہے تھے، جمعرات کو یروشلم کے پرانے شہر کے مرکزی فلسطینی راستے سے گزرے۔اسی دوران یہ فتنہ صیہونیوں کی جانب سے برپا کی گئی اور معصوم فلسطینیوں کو اکسایا گیا اور انہیں سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد ایک بار پھر اسلامی تعاون تنظیم اور خلیج تعاون کونسل نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
جو مصائب فلسطین اور اسرائیل کو آئیں گے وہ ناقابل بیان ہیں
سعودی وزیر خارجہ نے فروری میں میونخ سیکورٹی کانفرنس میں “مشرق وسطیٰ کے ممالک کا جیوسٹریٹیجک کردار” پر پینل بحث کے دوران فلسطینی کاز پر مملکت کے موقف کے بارے میں بات کی تھی۔شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا تھا کہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم امن کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اگر ہمیں امن کا راستہ نہ ملا تو جو مصائب فلسطین اور اسرائیل دونوں میں آئیں گے، وہ ناقابل بیان ہیں۔ لہذا، ہم وہ کریں گے جو ہم کر سکتے ہیں۔ ہم اس راستے کو تلاش کرنے کے لئے جس سے بھی ہو سکے رابطہ کریں گے۔
بھارت ایکسپریس۔