پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف۔
ہندی فلموں کا ایک مشہورگیت ہے ‘سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا’۔ لتا منگیشکر کا گایا ہوا اورمدھوبالا پرفلمایا گیا پچاس کی دہائی کا یہ گانا جب مشہورہوا تھا تب سرحد پارپاکستان میں بھی خوب گنگنایا جاتا تھا۔ تب اس گانے سے اپنی زندگی کی کہانی جوڑنے والوں نے بھی کب سوچا ہوگا کہ ایک دن یہ گانا ان کے ملک کی حقیقت بن جائے گا۔ ایک تضاد ضرورہے- فلم میں گانے کی صورتحال کے پیچھے بے پناہ محبت کو ملا بے وفائی کا صلہ ہے، جبکہ یہاں مسئلہ نفرت کا ہے۔ اس لمبے چوڑے کردارکا مقصد آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ دراصل، اس کی وجہ پاکستانی وزیراعظم شہبازشریف کا حال ہی میں دیا گیا بیان ہے۔ پہلے ایک بار بیان دوہرا لیتے ہیں، پھر تفصیل سے اس کا جائزہ لیں گے۔ عرب کے ایک چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں شہباز شریف نے کہا کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تین جنگیں ہوئی ہیں اور وہ لوگوں کے لئے صرف تکلیف، غریبی اوربے روزگاری لائی ہیں۔ پاکستان نے اپنا سبق سیکھ لیا ہے اوروہ ہندوستان کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، بشرطیکہ دونوں ممالک اپنے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے اہل ہوں۔
شہبازشریف کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے، جب پاکستان اقتصادی طورپربے حد کنگالی والے دورسے گزر رہا ہے۔ وہاں عوام کے لئے نہ کھانا ہے، نہ بجلی ہے، نہ دوائیاں ہیں اورنہ دوسرے بنیادی وسائل۔ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائراس حدتک ختم ہوگئے ہیں کہ پاکستان اب صرف دو ہفتے تک درآمدات کرسکتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطراوردوسرے اسلامی ممالک نے بھی اپنا تعاون محدود کردیا ہے۔ پاکستانی معیشت کو کھائی میں گرتا ہوا دیکھ کرچین بھی نئی مدد کے بجائے پرانے قرضوں کی وصولی کے لئے باربار’گھڑکیاں’ دے رہا ہے۔ 2021 میں آئے سیلاب کے اثرات نے بچے ہوئے سرکاری خزانے کو بھی واضح کردیا ہے۔ بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے دو طرفہ تجارت مکمل طور پرٹھپ ہے۔ ایسے میں بھارت-افغانستان کو تو گیہوں (گندم) بھیج رہا ہے، لیکن پاکستان کونہیں۔ بھوک کے دہانے پرکھڑی پاکستانی عوام کی آٹے کے لئے دوڑ لگانے والی تصاویربھی حال میں خوب وائرل ہوئی تھیں۔
تو پہلی بات تویہ ہوئی کہ شریف کے اس بیان کے پیچھے کسی خود شناسی کی ترغیب نہیں بلکہ حالات سے پیدا ہوئی مجبوری ہے۔ اس سال پاکستان میں الیکشن بھی ہونے ہیں۔ ویسے بھی یہ پہلی بارنہیں ہے جب کوئی پاکستانی وزیراعظم امن کی بات کررہا ہے۔ 1999 میں اٹل جی نے لاہور کا دورہ کیا اورکارگل میں ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔ 2001 میں پرویز مشرف بھارت آئے اورآگرہ معاہدے پردستخط کرنے کے بعد پاکستان لوٹتے ہی سرحد پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کا سیلاب آگیا۔ تب سے ایسی کئی مثالیں ہیں جب امن مذاکرات شروع کی گئی، لیکن اری، پلوامہ جیسی دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دے کر رخنہ اندازی کی گئی۔ یہی پاکستان کی بھارت پالیسی کی حقیقت بھی ہے۔ پاکستانی فوج نے ملک میں اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے بھارت کے خطرے کو ڈھال بنایا ہے، توپاکستانی سیاست دانوں نے ووٹ کے لئے بھارت مخالف جذبات کو ہوا دینے میں اپنی زندگیاں گزاردی ہیں۔
دوسرا پہلوشہبازشریف کے بیان کی زبان (بھاشا) کا ہے۔ سبق کون سیکھتا ہے؟ جو غلطی کرتا ہے۔ کسی دوسرے کی غلطی سے متاثر شخص کو کبھی آپ نے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنا سبق سیکھ لیا ہے اور میں اپنے بچاؤ کے لئے نہیں لڑوں گا۔ صرف حملہ آور ہی کہتا ہے کہ اس نے سبق سیکھ لیا ہے۔ بھارت نے کبھی پاکستان پرجنگ نہیں تھوپا۔ ہم پر حملہ ہوا تو بچاؤ کے لئے پلٹ وار کے علاوہ ہمارے پاس کبھی کوئی متبادل نہیں رہا۔ جنگ بھڑکانے کی پالیسی نے ہربار پاکستان کو اوندھے منہ پٹخنی دی ہے اور ہرجنگ نے اسے پہلے سے زیادہ غریب اور غیرمستحکم بنایا ہے۔ دوسری طرف بھارت ہے جو تقسیم کے بعد سے ہی امن وسکون کی راہ پرآگے بڑھ کرآج دنیا کی اہم آواز بن چکا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اورسب کا پریاس والے اصول پر چل کرآج بھارت ترقی اورخوشحالی کے امرت کال کا گواہ بن رہا ہے۔ ہم نے وقت وقت پر خود میں سدھار کئے ہیں، اس لئے ہمارے لئے آج پاکستان کی طرح سبق سیکھنے والے حالات نہیں ہیں۔
شہباز شریف کے بیان کا تیسرا پہلو ‘بشرطیکہ ہم اپنے حقیقی مسائل کو حل کرسکیں’ والا آخری حصہ ہے، جس میں خود سبق سیکھنے کے لئے بھی پاکستان بھارت پراپنی شرط ایسے تھوپ رہا ہے، جیسے یہ بھارت کی مجبوری ہے کہ پاکستان کا بھلا ہو۔ کشمیرمیں حقوق انسانی اور آرٹیکل 370 کا ذکرکرکے پاکستان نے یہ بھی واضح کردیا کہ وہ سدھرنے والوں میں سے نہیں ہے۔
اس لئے شہبازشریف کے بیان میں نیا کچھ نہیں ہے اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اسے سرحد کے دونوں طرف مسترد کردیا گیا ہے۔ بھارت کے ساتھ بات چیت کے نتائج کو قابو میں رکھنے کے لئے کشمیروالی شرط دوہرا کر شہباز شریف نے بھلے ہی اپنی گردن بچانے کی کوشش کی ہو، لیکن پاکستانی فوج کو یہ بات پسند نہیں آئی ہے۔ شہباز شریف کے بیان کے فوراً بعد ہی ان کی مدت سے آئی صفائی فوج کے دباؤ کا ہی نتیجہ ہے۔ بھارت نے بھی کشمیر سے جوڑکر پرانے موضوعات کو اٹھانے والے شریف کے بیان کو ازسرنو مسترد کردیا ہے۔
شریف پر بھروسہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان جب تک سرحد پار سے دہشت گردی کو نہیں روکتا، تب تک ہندوستان کو اس سے کیوں بات کرنی چاہئے؟ ہمارے سامنے ایسی کون سی مجبوری ہے کہ ہم متحدہ عرب امارات یا کسی بھی دوسرے ملک کو ثالثی کے طورپر قبول کریں؟ ‘شملہ معاہدہ’ دونوں ممالک کے درمیان کسی تیسرے فریق کی ثالثی کے واضح طور پرخارج کرتا ہے اورمعاہدے پر صرف ہم نے نہیں، پاکستان نے بھی دستخط کئے ہیں۔ ویسے بھی دونوں ممالک کے درمیان امن کی کوئی بھی شروعات پاکستانی فوج کے دخل کے بغیرآگے نہیں بڑھ سکتی۔ دنیا بھی جانتی ہے کہ پاکستان کے فیصلے اس کی قومی اسمبلی میں نہیں، بلکہ راولپنڈی واقع فوجی ہیڈ کوارٹر میں کئے جاتے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے بھی شہباز شریف کی باتوں کا کوئی مول نہیں رہ جاتا ہے۔
دراصل، پاکستان آج ایک ایسے تاریخی دوراہے پر ہے، جہاں اسے صرف مستحکم معیشت کے لئے ہی نہیں، بلکہ قومی سلامتی کے لئے بھی پختہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے پہلے تواسے کشمیرموضوع کو پیچھے چھوڑنے اور اپنے گھریلو صوبوں کے درمیان مستقل مزاجی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، جہاں بڑے پیمانے پر ٹوٹن، اسے کسی دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ اندرونی طور پر بڑھتا ہوا انتشار صرف پاکستان کے لئے ہی نہیں، پوری دنیا کے لئے بھی خطرہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارت کے ضمن میں سبق سیکھنے کی بات کرنے والے شہباز شریف نے دنیا کو یہ یاد دلایا ہے کہ وہ بھی ایک ایٹمی ہتھیار والا ملک ہے۔ شریف کے پورے بیان میں شاید یہی غورکرنے والی اکلوتی بات ہے۔