Bharat Express

Urdu Development Organization: ملک کے تین بڑے تعلیمی اداروں میں جلد از جلد محکموں کے سربراہان کا تقرری کی جائے،یو ڈی او

میٹنگ میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ طویل عرصے سے محکمہ کے سربراہوں کی تقرری کی جائے۔ ملک کے تین بڑے تعلیمی ادارے جن کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے

نئی دہلی. اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (یو ڈی او) کی ایک اہم میٹنگ دریا گنج میں ڈاکٹر سید احمد خان کی صدارت میں منعقد ہوئی، میٹنگ میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ طویل عرصے سے محکمہ کے سربراہوں کی تقرری کی جائے۔ ملک کے تین بڑے تعلیمی ادارے جن کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے، ایسا نہ ہونے کی وجہ سے وہاں عدم استحکام کی صورتحال ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور نیشنل کونسل فار ڈیولپمنٹ آف اردو لینگویج (این سی پی یو ایل) جیسے تینوں اداروں میں بہترین تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی ہے۔یہ تمام ادارے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قومی سطح کے ان اداروں سے لوگ بھی وابستہ ہیں جو ملک کی ترقی میں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لیے تین نام ملک کے صدر کو انتخاب کے لیے بھیجے گئے تھے جن میں ایک خاتون کا نام بھی شامل ہے۔ یہ نام گزشتہ نومبر میں بھیجے گئے تھے لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ یہاں ایک بار پھر علی گڑھ کے اقلیتی کردار کی بات ہورہی ہے اور یہ معاملہ عدالت میں بھی زیر سماعت ہے۔ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو نقصان پہنچنے سے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ترقی اور تعلیم متاثر ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے قبول کیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار کی حامل ہونے کے باوجود قومی سطح کا بڑا ادارہ بن سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے لیکن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی عدم موجودگی کی وجہ سے یونیورسٹی کا تمام کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں جلد کچھ اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر کی تقرری کا معاملہ بھی تعطل کا شکار ہے۔ اس سلسلے میں پانچ افراد کے نام شارٹ لسٹ کر کے حکومت کو بھجوائے گئے ہیں لیکن ابھی تک یہاں کسی کو بھی تعینات نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر کی تعیناتی نہ ہونے سے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ این سی پی یو ایل ملک کا ایک بڑا ادارہ بھی ہے۔ یہ قومی سطح کا ادارہ مرکزی حکومت کی وزارت تعلیم کے تحت اردو زبان کی ترقی اور بہتری کے لیے کام کرتا ہے۔ اس ادارے کے ڈائریکٹر کو ان کے عہدے سے فارغ ہوئے تقریباً 6 ماہ ہو چکے ہیں۔ 27 ستمبر کو شیخ عقیل احمد نے ڈائریکٹر کا عہدہ چھوڑ دیا جس کے بعد سے یہ ادارہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ فی الحال انسٹی ٹیوٹ کی ذمہ داری عارضی طور پر دھننجے سنگھ کے ہاتھ میں ہے جو پہلے ہی ایک بڑے انسٹی ٹیوٹ کے صدر کے عہدے پر فائز ہیں اور جے این یو میں انگریزی کے پروفیسر بھی ہیں۔ وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ کونسل کا کام بھی دیکھ رہے ہیں۔ کونسل میں مستقل ڈائریکٹر کی ضرورت ہے، یہاں بھی اردو سے متعلق تمام کام ٹھپ ہیں۔ کونسل کی گورننگ کونسل گزشتہ ہفتے تشکیل دی گئی تھی۔ لیکن جب تک ڈائریکٹر اور وائس چیئرمین کا تقرر نہیں ہو جاتا ان کمیٹیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔حکومت نے یکم فروری کو کونسل کے ڈائریکٹر کے لیے سلیکشن کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جس میں 6 ممبران کے انٹرویوز لیے گئے تھے لیکن اب تک کوئی اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

کونسل کے وائس چیئرمین کا عہدہ بھی گزشتہ 3 سال سے خالی ہے، حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات قریب ہیں، اس لئے انتخابات سے قبل حکومت کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے تعلیمی اداروں میں محکمہ کے سربراہوں کی تقرری کا فیصلہ کرے۔ اجلاس میں ڈاکٹر لال بہادر اور ڈاکٹر پرویز العلوم وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read