Bharat Express

Electoral Bond Controversy: کیا ہوتا ہے الیکٹورل بانڈ اور کیوں ہوتی رہی ہے مخالفت؟ آسان زبان میں یہاں سمجھئے

سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ پرآج روک لگا دی ہے۔ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن بانڈ کے اختیارکی خلاف ورزی ہے۔ عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ کس حکومت کو کتنا پیسہ ملا ہے۔

سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ پرآج روک لگا دی ہے۔ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن بانڈ کے اختیارکی خلاف ورزی ہے۔ عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ کس حکومت کو کتنا پیسہ ملا ہے۔ عدالت نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کو احکامات دیئے ہیں کہ 2019 سے لے کراب تک الیکٹورل بانڈ سے متعلق تمام جانکاری تین ہفتے کے اندرالیکشن کمیشن کو سونپیں۔ 3 ہفتے بعد الیکشن کمیشن کو یہ تمام جانکاری اپنی آفیشیل ویب سائٹ پر نشرکرنی ہوگی۔ پوری بحث کو سمجھنے کے لئے ہمیں کچھ بنیادی سوال کا جواب معلوم ہونا چاہئے۔ انتخابی بانڈ کیوں اورکیسے جاری کئے جاتے ہیں، کون خرید سکتا ہے اوراس سے متعلق کیا تنازعہ ہے؟

کیا ہے الیکٹورل بانڈ

ہندوستان میں الیکشن کے وقت بہت سارا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ پارٹیوں کو عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ پیسہ آتا ہے چندہ کے ذریعہ۔ سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے کے ذریعہ کو ہی الیکٹورل بانڈ کہتے ہیں۔ مودی حکومت نے 2017 میں الیکٹورل بانڈ لانے کا اعلان کیا تھا۔ آئندہ ہی سال جنوری 2018 میں اسے نوٹیفائیڈ کردیا گیا۔ اس وقت حکومت نے اسے پولیٹیکل فنڈنگ کی سمت میں سدھار بتایا اوردعویٰ کیا کہ اس سے بدعنوانی سے لڑائی میں مدد ملے گی۔

کب اور کون خرید سکتا ہے الیکٹورل بانڈ؟

الیکٹورل بانڈ جنوری، اپریل، جولائی اوراکتوبرمہینے میں جاری کئے جاتے ہیں۔ انتخابی بانڈ کو ہندوستان کا کوئی بھی شہری، کمپنی یا تنظیم خرید سکتی ہے۔ یہ بانڈ 1000، 10 ہزار، ایک لاکھ اورایک کروڑ روپئے تک کے ہوسکتے ہیں۔ ملک کا کوئی بھی شہری ایس بی آئی کی 29 برانچوں سے الیکٹورل بانڈس خرید سکتے ہیں۔ چندہ ملنے کے 15 دن کے اندرسیاسی پارٹیوں کو انہیں بھنانا ہوتا ہے۔ بانڈ کے ذریعہ صرف وہی سیاسی پارٹی چندہ حاصل کرسکتی ہے جوعوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 29 اے کے تحت رجسٹرڈ ہیں اورجنہوں نے گزشتہ پارلیمانی یا اسمبلی انتخابات میں کم ازکم ایک فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔

تنازعہ کی شروعات کہاں سے ہوئی؟

تنازعہ کی شروعات تو 2017 میں ہی ہوگئی تھی جب اس کا اعلان ہوا۔ اسے 2017 میں ہی چیلنج دیا گیا تھا، لیکن سماعت 2019 میں شروع ہوئی۔ سپریم کورٹ نے سبھی سیاسی پارٹیوں کو ہدایت دی کہ وہ 30 مئی، 2019 تک انتخابی بانڈ سے متعلق تمام جانکاریاں الیکشن کمیشن کو دیں۔ حالانکہ عدالت نے اس اسکیم پر روک نہیں لگائی۔ پھرسال 2019 کے دسمبر مہینے میں ہی اس سے متعلق دو عرضیاں داخل کی گئیں۔

پہلی عرضی ایسوسی سیشن فارڈیموکریٹک ریفارمس اورغیرمنافع بخش تنظیم کامن کازنے مشترکہ طورپردائرکی تھی۔ دوسری عرضی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے دائرکی تھی۔ درخواستوں میں کہا گیا کہ ہندوستانی اورغیرملکی کمپنیوں کے ذریعہ ملنے والے عطیات گمنام فنڈنگ ​​ہیں۔ جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پرانتخابی بدعنوانی کو قانونی شکل دی جا رہی ہے۔ یہ اسکیم شہریوں کے جاننے کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔

کس پارٹی کو ملا کتنا چندہ؟

رپورٹس کے مطابق، مارچ 2018 سے جولائی 2023 کے درمیان کئی سیاسی پارٹیوں کو 13,000  کروڑ روپئے ٹرانسفر کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2018 اور 2022 کے درمیان 9,208  کروڑ روپئے کے انتخابی بانڈ بیچے گئے اور بی جے پی نے کل رقم کا 58 فیصد حاصل کیا۔ جنوری 2023 میں الیکشن کمیشن کے جاری اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ 22-2021 میں انتخابی بانڈ کے ذریعہ چار قومی سیاسی پارٹیاں بی جے پی، ترنمول کانگریس، کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے اپنی کل آمدنی کا 55.09 فیصد یعنی 1811.94  کروڑ روپئے جمع کئے۔ بی جے پی کو 22-2021 میں انتخابی بانڈ کے ذریعہ سے چندہ کا بڑا حصہ ملا، اس کے بعد ترنمول کانگریس اور کانگریس کو ملا۔

بھارت ایکسپریس۔