Bharat Express

Mirza Ghalib Birthday: ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن،اردو و فارسی کے عظیم شاعر مرزاغالب کا یوم پیدائش

غالب کی شاعری کا اگر ہم جائزہ لیتے ہیں تو ان کی شاعری میں رومانیت، واقعیت،، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ملتا ہے  ۔

اردو اور فارسی زبان کے عظیم شاعر اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے،غالب ابھی اپنی عمر کے پانچویں بہار کو پہنچے تھے کہ والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے،والد کے داغ مفارقت دینے کے بعد چچا نے آپ کی کفالت کی تاہم کفالت شعاری کا یہ سلسلہ بھی دیر تک نہ رہ سکا ،چار سال کے بعد چچا بھی خالق حقیقی سے جاملے۔

اردو اور فارسی زبان کا یہ عظیم شاعر ایام طفل سے شعر کہنا شروع کیا،14 سال کی عمر غالب رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ،شادی کے بعد وہ دہلی آگئے،یہاں انہوں نے ایرانی باشندے عبد الصمد کے سامنے زانو تلمذ طے کیا اور فارسی زبان و ادب پر گرفت بنائی ۔غالب اردو اور فاسی دونوں زبانوں میں اشعار کہتے تاہم فارسی میں انہیں ید طولی حاصل تھا۔

غالب کی شاعری کا اگر ہم جائزہ لیتے ہیں تو ان کی شاعری میں رومانیت، واقعیت،، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ملتا ہے  ۔

انہوں نے زندگی کو کھلے ذہن کے ساتھ مختلف زاویوں سے دیکھا اور ایک سچے فنکار کی حیثیت سے زندگی کی متضاد کیفیتوں کو شاعری کے قالب میں ڈھالا۔

ان کی شاعری زندگی کی کشمکش کی پروردہ ہے اسی لئے ان کی شاعری میں جو رنج و الم ملتا ہے اور جس تنہائی، محرومی، ویرانی، ناامیدی کی جھلک ملتی ہے، وہ صرف ذاتی حالات کا عکس نہیں بلکہ اپنے عہد، سماج اور ماحول کی آئینہ دار ہے۔

آخری عمر میں غالب شدید بیمار رہنے لگے اور بالآخر پندرہ فروری 1869 کو خالق حقیقی سے جاملے۔

مرزا غالب کے چنندہ اشعار مندرجہ ذیل ہیں

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے

بہت نکلے مرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے

 

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا

 

میں بھی منھ میں زبان رکھتا ہوں

کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

 

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

 

کعبہ کس منھ سے جاؤگے غالب

شرم تم مگر نہیں آتی

-بھارت ایکسپریس