نئی دہلی میں واقع جامعہ ملّیہ اسلامیہ اسکول کے طلبہ(بائیں سے دائیں )ارحم حیات، ہمایوں رشید، مبارک ثمر اور حفصہ فہد نے ۱۲ روزہ خلا تبادلہ پروگرام کے تحت امریکی ریاست الاباما کے ہنٹِنگٹن کا دورہ کیا۔
مصنفہ – پارومیتا پین
بھارت کی پہلی نسل کے چار طلبہ یونیورسٹی آف الاباما میں ۱۲ روزہ تبادلہ پروگرام کی تکمیل کے بعد امریکہ سے نئی دہلی واپس آ گئے ہیں۔ ان طلبہ نے ریاست الاباما کے شہر ہَنٹس وِل میں یو ایس اسپیس اینڈ راکٹ سینٹر میں قائم اسپیس اکیڈمی فار یوتھ میں اس تربیتی تبادلہ پروگرام کے دوران راکٹ داغے، گرم ہوا کے غباروں کا سراغ لگایا، نیز پیشہ ورانہ تعلقات قائم کیے۔ اس تبادلہ پروگرام کی مالی امداد ویانا میں قائم بین الاقوامی تنظیموں کے امریکی مشن نے کی تھی۔
حفصہ فہد، ہمایوں رشید، ارحم حیات اور مبارک ثمر نے حال ہی میں اَیکسِس گریجویٹ پروگرام کی تکمیل کی ہے۔ یہ امریکی وزارت خارجہ کا دو سالہ بین الاقوامی اسکالر شپ پروگرام ہے۔ اس کے تحت ۱۳ سے ۲۰ سال کی عمر کے باصلاحیت نوجوان طلبہ کو انگریزی زبان کی تربیت دی جاتی ہے۔
ان طلبہ کو اس سال کے شروع میں یو این وی آئی ای کے خلائی پروگرام برائے نوجوانان کے لیے منتخب کیا گیا تھا جہاں انہوں نے بھارت کی نمائندگی کی۔اَیکسِس پروگرام کے ۱۲ فارغین، جن کا تعلق ۶ مختلف ممالک سے تھا، نے اس تربیتی کیمپ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کیمپ کا مقصد ان طلبہ کو امریکی خلائی پروگرام اور امریکی محققین کی اس شعبے میں مہارت سے روشناس کرانا تھا۔ یہ پروگرام اپولو ۱۱ مشن کے ۵۰ برس مکمل ہونے کے اعزاز میں شروع کیا گیا تھا۔
نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانے میں تعینات ریجنل انگلش لینگویج اسپیشلسٹ رچنا شرما کہتی ہیں ’’۲۰۲۰ میں شروع کیا جانے والا خلائی پروگرام برائے نوجوانان ایک بالکل ہی نیا پروگرام ہے۔‘‘ ان کے بقول یہ کیمپ انگلش اَیکسِس مائیکرو اسکالر شپ پروگرام کے ان سابق طلبہ کے لیے ہےجو اسٹیم مضامین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔
انتخاب کا معیار
اس پروگرام کے لیے انتخاب کی اہم شرط درخواست گزار کااَیکسِس فارغ ہونااور اسٹیم طالب علم ہونا ہے۔ رچنا انکشاف کرتی ہیں’’۲۰۲۰ء میں اس پروگرام کے لیے انتخاب کا عمل مختصر تھا لہٰذا اس کی تشہیر صرف شمالی بھارت خاص طور پر دہلی میں ممکن ہو پائی۔‘‘
کووِڈ ۱۹ پابندیوں کے سبب اس پروگرام کو مئی ۲۰۲۰ ءتک موخر کرنا پڑا تھا۔ تاہم اس دوران ہفتہ واری ورچوئل اجلاس اور گروپ کے تعاملات ہوتے رہے اور تمام امیدوار گروپ اسائنمنٹس میں پابندی سے شریک ہوتے رہے۔ رچنا بیان کرتی ہیں ’’بھارت کے گروپ نے کیمپ کے منتظمین کو اپنی غیر معمولی تن دہی اور لگن سے بے حد متاثر کیا۔ اسی لیے اس گروپ کو انگریزی لفظ ’پرسِسٹ‘ سے موسوم کیا گیا تھا۔‘‘
خلائی سائنس کی تفہیم
ان طلبہ کا انتخاب خلائی اور متعلقہ موضوعات میں ان کی دلچسپی کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ ارحم حیات گلگوٹیاز یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ہیں۔ ان کی دلچسپی خالص ریاضی کے مطالعے میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تبادلہ پروگرام نے ان کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ کامیابی کی ساتھ راکٹ داغنے میں کس قدر محنت درکار ہوتی ہے۔
ایروناٹکس انجینئرنگ کے طالب علم ہمایوں رشید اس بیان کی توسیع کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’مجھے معلوم ہوا کہ خلا میں مشن بھیجنے کے لیے ایک سے زیادہ ٹیمیں درکار ہوتی ہیں اور یہ کہ خلائی شٹل میں بیٹھے افراد اس پورے منصوبے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوتے ہیں۔ نیز یہ اہم جانکاری حاصل ہوئی کہ خلاباز خلائی مشن کے لیے کس طرح تیاری کرتے ہیں۔‘‘
مبارک ثمر، جو کہ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی سے علمِ نباتات میں اپنی بیچلر ڈگری مکمل کر رہی ہیں، بتاتی ہیں کہ ان کے لیے یہ دورہ نہایت ہی سود مند اور حوصلہ افزا رہا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ زمین پر واپس آنے والے خلائی شٹل کو چھونے اور اس کے پرزوں کا معائنہ کرنے سے ان کو ایک مسحور کن تجربہ ہوا۔ معلمین ہر پرزے کے پیچھے کی کہانی بتا رہے تھے۔
۱۸ سالہ مبارک کہتی ہیں کہ پروگرام کے تحت جو ۱۲ دن انہوں نے راکٹ سینٹر میں گزارے وہ ان کی زندگی کے سب سے اچھے دن ہیں۔ وہ شروع شروع میں اس قدر پُرجوش تھیں کہ علی الصباح چار بجے ہی جاگ جاتیں تاکہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔
وہ بتاتی ہیں ’’پروگرام تمام شرکاکی آمد کے بعد ہی شروع ہوتا تھا۔پروگرام کے دوران وقت کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔‘‘ شرکا کو جو بھی کام دیے جاتے وہ انہیں اپنی صلاحیتوں، اجتماعی کوششوں اور اطلاقی مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مکمل کرنے ہوتے۔ شرکا نے سمولیٹر پر کام کیا، خلائی لباس تیار کیے، راکٹ تیار کیے اور انہیں داغا بھی۔
مبارک کہتی ہیں ’’ایک بار میں آئی ایس ایس کی کمانڈر تھی اور ہم نے اس کام کو نہایت سنجیدگی سے انجام دیا۔ مجھے بالکل احساس نہیں ہوا کہ ہم کسی سمولیٹر کا حصہ ہیں۔ مجھے تو یہ بالکل حقیقی معلوم ہوا۔‘‘
گہرا ثقافتی سنگم
اَیکسِس پروگرام کی بدولت حیات کی انگریزی میں بات چیت کرنے کی صلاحیت میں اضافے کے ساتھ ان میں اعتماد بھی پیدا ہوا۔ مگر خلائی پروگرام برائے نوجوانان سے انہیں اندازہ ہوا کہ وہ کہاں تک آ گئے ہیں اور مزید وہ کتنا حاصل کر سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’’موسمیاتی تصویری نظام اور شمسی توانائی کے مختلف مراکز بہت ہی شاندار تھے۔‘‘انہیں گرم ہوا کے غبارے پر کام کرنے اور اس کا سراغ لگانے کا بھی موقع ملا۔ وہ مزید کہتے ہیں ’’دیگر ممالک کے شرکا سے ملاقات کرنے کا تجربہ بھی بہت شاندار رہا۔ مجھے پہلے سے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میں انگریزی میں بھی مذاق کر سکتا ہوں۔‘‘
مبارک کو اس پروگرام میں منتخب ہونے کا ذرا بھی یقین نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں ’’ہنٹس وِل ایک نہایت ہی خوبصورت جگہ ہے۔ ہم مختلف مراکز کو دیکھنے جاتے تھے۔ میری خواہش تھی امریکہ کے مزید علاقوں کو دیکھوں۔‘‘ دیگر شرکا کے ساتھ کام کرنے سے دلچسپ معلومات کا تبادلہ ہوا۔ وہ مزید بیان کرتی ہیں ’’جب میں ان سے ملی تو میں نے انہیں بہت شاندار اور مہذب پایا۔مجھے بعد میں علم ہوا کہ وہ بھی میرے متعلق یہی رائے رکھتے تھے۔‘‘
شرکا نے ثقافتی نمائشوں اور شاپنگ مالکی سیر کے ذریعے امریکی ثقافت اور زندگی کا قریب سے تجربہ کیا۔ رشید نے اس پروگرام سے تعاون کی اہمیت اور ٹیم میں کام کرنے کا ہنر سیکھا۔ ان کا کہنا ہے ’’سرحدیں اور حدود بے معنی ہیں کیونکہ ہم یہاں ہدایات کے مطابق ہی کام کو انجام دینے کے لیے ہیں ۔ ہم نے کیمپ میں ہی عید منائی اور چاکلیٹ تقسیم کیے۔‘‘
رابطہ سازی کے مواقع
شرکا کا خیال ہے کہ اس پروگرام نے مستقبل کے مواقعوں کے لیے نئے راستے کھولے ہیں۔ اس پروگرام سے نیٹ ورکنگ اور سابق طلبہ سے رابطہ قائم کرنے کے جو مواقع فراہم ہوئے اس سے دیگر پروگراموں تک رسائی ممکن ہو گی۔ مبارک کہتی ہیں ’’پہلے میں اچھے نمبرات کے حصول کے لیے پڑھائی کرتی تھی لیکن اس پروگرام سے مجھے اعلیٰ کارکردگی کے مظاہرے کی ترغیب ملی ہے۔‘‘
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ امور عامّہ، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ ، نئی دہلی