فتح پور کی نوری مسجد کے خلاف انتظامیہ کی طرف سے بڑی کارروائی کی گئی ہے۔
اترپردیش میں بلڈوزرکارروائی کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے بلڈوزرکارروائی سے متعلق واضح گائیڈ لائن جاری کی ہے، لیکن پولیس انتظامیہ پراس کا بہت زیادہ اثرنہیں ہورہا ہے۔ تازہ معاملہ فتح پورکا ہے، جہاں نوری جامع مسجد کے ایک بڑے حصے کو بلڈوزرسے شہید کردیا گیا ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے سڑک کی توسیع کا حوالہ دیتے ہوئے محکمہ تعمیرات عامہ کی جانب سے یہ کارروائی کی گئی ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پی ڈبلیوڈی محکمہ نے نالا تعمیرکے لئے کئے گئے سروے کے دوران گزشتہ ماہ مسجد انتظامیہ کونوٹس دیا گیا تھا۔ اس پرمسجد کمیٹی کی طرف سے ایک ماہ کا وقت مانگا گیا تھا۔ اس سروے میں 133 مکان اوردوکانیں بھی تجاوزات کی زد میں آگئی تھیں۔ یہ مسجد 184 سال قدیم بتائی جاتی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایک ماہ گزرجانے کے بعد بھی مسجد کمیٹی کی طرف سے نہ توتجاوزات کوہٹایا گیا اورنہ ہی نوٹس کا جواب دیا گیا۔ اس پرمنگل کو اے ڈی ایم اوراے ایس پی کی موجودگی میں مسجد کے پچھلے حصہ کوبلڈوزر کی مدد سے منہدم کردیا گیا۔ اے ایس پی وجے شنکر مشرا کے مطابق، علاقے میں امن وامان کا ماحول برقرار ہے۔
ہائی کورٹ میں 13 دسمبر کو ہونی ہے سماعت
دوسری طرف، نوری جامع مسجد کمیٹی کے سکریٹری سید نوری کا کہنا ہے کہ نوٹس کے خلاف ہم نے الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ اس پر13 دسمبرکوسماعت ہونی ہے۔ تاہم اس سے پہلے ہی انتظامیہ نے مسجد کے پچھلے حصے کومنہدم کردیا، جوعدالت کی توہین ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ ایک تاریخی عمارت ہے، جس کومنہدم کیا جانا صحیح نہیں ہے۔ یہ ایک تہذیبی وراثت کونقصان پہنچانے جیسا ہوگا۔ عدالت میں سماعت سے صرف تین دن پہلے مسجد کے ایک بڑے حصے کوشہید کئے جانے کی بڑی کارروائی سے مسلمانوں میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ علمائے کرام اوروکلاء کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کارروائی پلیسیزآف ورشپ ایکٹ 1991 کی خلاف ورزی ہے۔ ساتھ ہی اس سے سپریم کورٹ کے حکم کی بھی خلاف ورزی ہورہی ہے اوراس سے ریاست کے امن وامان کوبھی خطرہ ہے۔
مسجد سے 300 میٹر کے علاقے کو کیا گیا سیل
اس دوران موقع پربھاری پولیس فورس تعینات کی گئی۔ انتظامیہ کی طرف سے قصبے کے لوگوں کوگھروں میں رہنے کے لئے کہا گیا۔ ساتھ ہی مسجد کے قریب 200 میٹرکی سبھی دوکانوں کو بند کرایا گیا ہے۔ وہیں، مسجد سے 300 میٹرکےعلاقے کوسیل کیا گیا ہے۔ سیکورٹی کے لحاظ سے قصبے کے تمام مقامات پرپولیس فورس کے ساتھ ریپیڈ ایکشن فورس بھی موجود رہی۔
بھارت ایکسپریس۔