جموں و کشمیر میں ووٹنگ کے چرچے کاشور تیز، بی جے پی کے اس وزیر نے انتخابات کے حوالے سے کہی یہ بات
از: ڈاکٹر جتیندر سنگھ:سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج)
India and the US enter an era of equal cooperation in technology: وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں امریکہ کا جو دورہ کیا، وہ تاریخ کے اوراق میں درج ہوگیا ہے کیونکہ اس دورے نے آنے والے برسوں میں عالمی سطح پر ایک نمایاں حیثیت رکھنے والے ملک کے طور پر ہندوستان کا وقار قائم کیا ہے۔ ہندوستان اور امریکہ کے مساوی تعاون پر مبنی ٹیکنالوجی کے ایک دور میں داخل ہونے سے ایک نئے سفر کے آغاز کا بھی پتہ چلتا ہےجس کی پروازوں کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کے مطابق’’آسمان لا محدود ہے‘‘۔
اس کامیابی کا سہرا درحقیقت، وزیر اعظم نریندر مودی کے سر جاتا ہے، جنہوں نے گزشتہ 9 برسوں کے دوران، کئی غیر روایتی اور بے مثال فیصلے کئے، جنہوں نے کلیدی شعبوں میں زبردست تبدیلی لانے کے لئے ہندوستان میں راہ ہموار کی، اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان سے کئی برسوں پہلے اپنا خلائی سفر شروع کرنے والے امریکہ نے آج اپنی مستقبل کی کوششوں میں ایک مساوی شراکت دار کے طور پر ہندوستان سے تعاون مانگاہے۔
واشنگٹن میں 21 جون کو ولارڈ انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں ایک تقریب کے دوران، ہندوستان آرٹیمس معاہدے پر دستخط کرنے والا 27 واں ملک بن گیا۔
آرٹیمس معاہدہ پرامن مقاصد کے لیے ملکوں کے درمیان سویلین خلائی تحقیق میں تعاون میں رہنمائی کے واسطے اصولوں کا ایک عملی مجموعہ قائم کرتا ہے۔ اس معاہدے سے ہندوستان کو چاند اور دیگر اجرامِ فلکی کی تحقیق کے لئے امریکہ کی قیادت میں چلائے جانے والے آرٹیمس پروگرام میں حصہ لینے کی اہلیت حاصل ہوگئی تھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے سے خصوصی طور پر الیکٹرانکس کے خلائی ڈومین میں اہم ٹیکنالوجیز کی درآمد پر پابندیوں میں نرمی کی راہ ہموار ہوگی، جس سے ہندوستانی کمپنیوں کو امریکی بازاروں کے لئے سسٹم تیار کرنے اور اختراعات کرنے کا فائدہ حاصل ہوگا۔ اس سے ہندوستان کو مشترکہ طور پر مزید سائنسی پروگراموں میں شرکت کرنے کی سہولت بھی حاصل ہوگی،جس سے اس کو مائیکرو الیکٹرانکس، کوانٹم، خلائی تحفظ وغیرہ سمیت مزید اسٹریٹجک شعبوں میں امریکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات اورانسانی خلائی پرواز کے پروگراموں سمیت طویل مدتی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے مشترکہ معیارات تک رسائی حاصل ہوگی۔
آرٹیمس معاہدہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو کسی قسم کی مالیاتی عہد بندی کا تقاضہ نہیں کرتا۔ اس معاہدے پر آٹھ بانی ممالک – آسٹریلیا، کینیڈا، اٹلی، جاپان، لکژمبرگ، متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکہ نے 13 اکتوبر 2020 کو دستخط کیے تھے۔ اس کے ارکان میں جاپان، فرانس، نیوزی لینڈ، برطانیہ، کینیڈا، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور اسپین جیسے امریکہ کے روایتی حلیف شامل ہیں جبکہ افریقی ممالک جیسے روانڈا، نائجیریا وغیرہ نئے شراکت دار ہیں۔
آئیے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آرٹیمس معاہدے میں شامل ہو کر ہندوستان کس طرح فائدہ اٹھائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق، خلائی پروگراموں کے لیے عالمی سطح پر سرکاری اخراجات گزشتہ سال تقریباً 103 بلین ڈالر تک پہنچ گئے تھے، جس میں امریکی حکومت نےمجموعی رقم کے نصف سے بھی زیادہ تقریباً 62 بلین ڈالر خرچ کئے۔ امریکہ کے بعد چین کا نمبر آتا ہے، جس نے تقریباً 12 بلین ڈالر خرچ کئے ہیں جوکہ کنسورشیم کا ایک حصہ نہیں ہے، ساتھ ہی روس پانچویں نمبر پر ہے، جس نے سالانہ 3.4 بلین ڈالر کے خرچ کئے ہیں ۔ ہندوستان کا نمبر ساتواں ہے جس کا سالانہ بجٹ 1.93 بلین ڈالر کا ہے۔
آئیے ہم سال 2022 میں مدار کے لئے چلائے گئے مختلف ممالک کے خلائی پروگراموں کی تعداد کا موازنہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پے لوڈ اسپیس ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ سال مدار میں لانچ کرنے کی 186کوششیں کی گئی تھیں، جن میں سے 76 امریکہ نے ، 62چین نے ، 21 روس نے جب کہ ہندوستان نے مدار میں لانچ کرنے کی 5 کوششیں کی تھیں۔ اب، آئیے ہم تیسرے کلیدی پیرامیٹر یعنی خلا میں مصنوعی سیاروں کی تعداد کا موازنہ کریں۔ 4 مئی 2023 تک مصنوعی سیاروں کا پتہ لگانے والی ویب سائٹ ’’آربٹنگ ناؤ‘‘ نے زمین کے مختلف مداروں میں 7,702 سرگرم مصنوعی سیاروں کی فہرست شائع کی۔ امریکہ کے پاس سب سے زیادہ 2,926 آپریشنل سیٹلائٹس ہیں، اس کے بعد چین کے پاس – 493، برطانیہ کے پاس – 450، روس کے پاس – 167، جب کہ ہندوستانآٹھویں نمبر پر ہے اور اس کے پاس 58 مصنوعی سیارے ہیں۔
ہندوستان کا خلائی پروگرام چھ دہائیوں سے چل رہا ہے اور اسرو سات سال بعد 1969 میں وجود میں آیا۔ بین الاقوامی تعاون اس کی خصوصیت رہا ہے اور اسرو میں لانچ کرنے والی مختلف ایجنسیوں جیسے کہ روس کی رسکوس موس اور یورپ کی ای ایس اے کے ساتھ تعاون کیا ہے جب کہ اسرو نے 34 سے زیادہ ممالک سے 385 سے زیادہ غیر ملکی مصنوعی سیاروں کو لانچ کیا ہے۔
سال 2014 سے پہلےاسرو کبھی کبھی ہی لانچ کی سرگرمیاں انجام دیا کرتا تھا، لیکن وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعہ نجی شعبے کی شرکت کے لیے خلائی شعبے کے دروازے کھولےجانے کے بعد، آجاسرو تقریباً 150 پرائیویٹ اسٹارٹ اپس کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ ڈیپ اسپیس مشنز کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا فائدہ بڑے پیمانے پر نو ع انسانی کو ہوتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ نسلِ انسانی کے فائدے کے لئے ممالک اپنے وسائل کو یکجا کریں۔ اس کے لئے وقت ضائع کیے بغیر، ہم خیال ممالک کو آگے بڑھنا ہوگا، تعاون کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے فوائد اور تجربات پر کام کرنا ہوگا اور جیسا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے زور دیا ہے ’’ہمیںسائلو میں کام نہیں کرتے رہنا چاہیے‘‘!
خلائی شعبے میں ہندوستان اور امریکہ کی اس نئی دوستی کا پہلا بڑا واضح فائدہ دیکھنے کے لیے ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ ایک ہندوستانی خلاباز کو اگلے سال بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) بھیجا جا سکتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن جمعرات کو وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس میں پہلے ہی اس کی تصدیق کر چکے ہیں۔
وزیراعظم مودی کے دورے کے دوران ہندوستان اور امریکہ کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ناسا ہندوستانی خلابازوں کو اپنی ایک سہولت پر ’’جدید تربیت‘‘ فراہم کرے گا۔
دوسرے شعبوں میں بھی دونوں فریقوں کے باہمی فائدے میں ایک زبردست اضافہ نظر آئے گا۔ امریکی میموری چپ فرم مائیکرون ٹیکنالوجی، انک نے جمعرات کے روز کہا کہ وہ گجرات میں ایک نئی چپ اسمبلی اور ٹیسٹ کی فیسی لیٹی میں 825 ملین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے گا جو کہ ہندوستان میں اس کی پہلی فیکٹری ہوگی۔ اس فیسی لیٹی میں مجموعی طور پر 2.75 ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس میں مرکزی حکومت اور گجرات کی ریاستی حکومت تعاون کرے گی۔
صدر بائیڈن اور وزیراعظم مودی نے صنعت، تعلیمی ادارے اور حکومت کے درمیان تعاون کو آسان بنانے کے لیے ایک مشترکہ ہند-امریکہ کوانٹم کوآرڈینیشن میکانزم قائم کرنے اور ایک جامع کوانٹم انفارمیشن سائنس اور ٹیکنالوجی معاہدے کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مصنوعی ذہانت(اے آئی)اور کوانٹم ٹیکنالوجیز کے مشترکہ ڈیولپمنٹ اور کمرشلائزیشن کے لیے اور ہندوستان میں ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ(ایچ پی سی)کی سہولیات تیار کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ تعاون کی حوصلہ افزائی کے واسطے امریکہ-ہندوستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اینڈومنٹ فنڈ کے تحت 2 ملین ڈالر کا گرانٹ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔
صدر بائیڈن نےایچ پی سیٹیکنالوجی اور سورس کوڈ کی ہندوستان کو امریکی برآمدات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے امریکی کانگریس کے ساتھ کام کرنے کے واسطے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ امریکی فریق نے ہندوستان کے سنٹر فار ڈیولپمنٹ آف ایڈوانسڈ کمپیوٹنگ
(سی-ڈی اے سی)کی یو ایس ایکسلریٹڈ ڈیٹا اینالیٹکس اینڈ کمپیوٹنگ ( اے ڈ ی اے سی)انسٹی ٹیوٹ میں شمولیت کے لیے اپنی بہترین کوششیں کرنے کا عہد کیا۔ اس کے علاوہ، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں 35 اختراعی مشترکہ تحقیقی تعاون کو یو ایس نیشنل سائنس فاؤنڈیشن(این ایس ایف)اور ہندوستان کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے(ڈی ایس ٹی)کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جائے گی۔
صدر بائیڈن نےاے آئیپر گلوبل پارٹنرشپ کے سربراہ کے طور پر ہندوستان کی قیادت کے لیے امریکی حمایت کا یقین دلایا۔ دونوں رہنماؤں نے ابتدائی مرحلے کے انڈین اسٹارٹ اپس سمیت اپنے 10 بلین ڈالر انڈیا ڈیجیٹائزیشن فنڈ کے ذریعے سرمایہ کاری جاری رکھنے کے گوگل کے ارادے کی تعریف کی۔
ہندوستان کا ایٹمی توانائی کا محکمہ (ڈی اے ای)لانگ بیس لائن نیوٹرینو فیسی لیٹی کے لیے، جو کہ امریکہ کی سرزمین پر پہلی اور سب سے بڑی بین الاقوامی تحقیقی سہولت ہے، پروٹون امپروومنٹ پلان۔2ایکسلریٹر کو باہمی تعاون کے ساتھ تیار کرنے کے سلسلے میں امریکہ کے توانائی کے محکمے (ڈی او ای)کی فرمی نیشنل لیبارٹری کے لیے 140 ملین ڈالر کا تعاون کرے گا ۔
صحت کے شعبے میں، دونوں ممالک کے تحقیقی ادارے سستی کینسر ٹیکنالوجی کے پروگراموں پر تعاون کریں گے، جس میں اے آئیسے چلنے والے تشخیصی اور پروگنوسز پریڈکشن ٹولز تیار کرنے اور ذیابیطس کی تحقیق شامل ہیں۔
ہندوستان کے شہری ہوا بازی کے شعبے کو تقویت دیتے ہوئے، ایئر انڈیا 34 بلین ڈالر میں 220 بوئنگ طیارے خریدے گی۔ ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات کے اب تک کے بہترین ہونے کی سب سے واضح علامت کا ذکر وزیراعظم مودی نے امریکی کانگریس سے اپنے خطاب میں کیا۔علامت یہ ہے کہ امریکہ آج نہ صرف ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے بلکہ دفاعی شعبے میں بھی تعاون کررہا ہے جس سے قابل اعتماد تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے۔
اور آخر میں وزیراعظم نریندر مودی کے امریکہ کے دورے کے اختتام پر جاری کئے گئے مشترکہ بیان کا آخری جملہ ’’ہمارے (ہندوستان اور امریکہ) کے عزائم مزید بلندیوں تک پہنچنے کے ہیں…‘‘
بھارت ایکسپریس۔