کیا کسی کی نجی جائیداد عوامی فلاح کے لیے لی جا سکتی ہے؟ اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے۔ سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت والی سپریم کورٹ کے 9 ججوں کی آئینی بنچ نے منگل 5 نومبر کو اپنا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہرنجی جائیداد (پرائیویٹ پراپرٹی) کو کمیونٹی پراپرٹی نہیں کہا جا سکتا۔ آئینی بنچ نے اس سال یکم مئی کو سماعت کے بعد نجی جائیداد کیس میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 1978 کے بعد کے ان فیصلوں کو رد کر دیا ،جس میں سوشلسٹ تھیم کو اپنایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ حکومت مشترکہ مفاد کے لیے تمام نجی املاک کو اپنے قبضہ لے سکتی ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ آئین کے آرٹیکل 39(B) کے تحت نجی جائیداد کو کمیونٹی پراپرٹی نہیں مانا جا سکتا اور نہ ہی اسے عوامی مفاد کے لئے کو تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
‘پرانے فیصلے معاشی نظریے سے متاثر تھے’
سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ نے اکثریتی فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 31 (سی) جو کہ ہدایتی اصولوں کے مطابق بنائے گئے قوانین کو تحفظ فراہم کرتا ہے، درست ہے۔ سی جے آئی چندرچوڑ نے کہا، ’’اب ہم 39 (بی) کے بارے میں بات کریں گے۔ 39(B) عوامی مفاد میں کمیونٹی پراپرٹی کی تقسیم کے بارے میں بات کرتا ہے۔ تمام نجی جائیداد کو کمیونٹی پراپرٹی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس سلسلے میں کیے گئے کچھ پہلے فیصلے ایک خاص معاشی نظریے سے متاثر تھے۔
‘ہر نجی جائیداد کو پبلک نہیں کہا جا سکتا’
چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے معاشی ڈھانچے (نظام)میں نجی شعبے کی اہمیت ہے۔ فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر نجی جائیداد کو کمیونٹی پراپرٹی نہیں کہا جا سکتا۔ جائیداد کی حیثیت، مفاد عامہ میں اس کی ضرورت اور اس کی کمی جیسے سوالات نجی جائیداد کو کمیونٹی پراپرٹی کا درجہ دے سکتے ہیں ۔
بھارت ایکسپریس