خواتین اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر: @narendramodi)
تاریخ اپنے آپ کو دہرانے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی ہے۔ 1947 میں 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو ملک کو صدیوں کی غلامی سے آزادی ملی۔ 76 سال بعد 21 ستمبرکوایک بار پھراسی قسم کا خوشگواراتفاق ملک کے سامنے پیش ہوا، جب تقریباً آدھی رات کو ناری شکتی وندن ایکٹ کی صورت میں ملک کی نصف آبادی کو بھی صدیوں کی غلامی سے آزادی مل گئی۔ لوک سبھا میں خواتین کے ریزرویشن بل کی منظوری، پارلیمنٹ میں پہلی بارپیش کئے جانے کے تقریباً تین دہائیوں بعد، ایک خوش آئند قدم ہے۔ نہ صرف خواتین کو سماجی-سیاسی طور پربا اختیار بنانے کے لحاظ سے، بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ ملک کا ایک بڑا سیاسی طبقہ بھی خود سے پیدا ہونے والی سیاسی ہچکچاہٹ کی حدیں توڑنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
1996 سے، کئی حکومتوں نے خواتین کے ریزرویشن بل کے مختلف ورژن متعارف کروائے، لیکن سیاسی اتفاق رائے کی کمی کی وجہ سے اسے قانون کے طور پر نافذ کرنے میں ناکام رہے۔ یو پی اے حکومت نے 2008 میں راجیہ سبھا میں خواتین کے ریزرویشن بل کو پیش کیا اور جب اسے دو سال بعد پاس کیا گیا تو یہ بل پہلی بار حقیقت کے قریب آیا۔ تاہم، جب پارلیمانی سسٹم کے مطابق بل لوک سبھا کو بھیجا گیا تو یوپی اے اتحادیوں سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کی مخالفت کی وجہ سے اسے منظور نہیں کیا جاسکا۔ 2014 میں ایوان کی تحلیل کے ساتھ ہی بل کی منظوری کی امید بھی ختم ہوگئی۔ اپنے سیاسی ارادے سے اس طویل التواء کی خواہش کو محسوس کرتے ہوئے، وزیر اعظم نریندرمودی نے اب ایک اور وجہ سے تاریخ میں اپنا نام درج کرایا ہے۔
خواتین ریزرویشن بل کو متعارف کرانے کے لیے مرکزی حکومت کا یہ قدم کئی محاذوں پر قابل تعریف ہے۔ گنیش چترتھی پروزیراعظم کا اعلان اور یہ حقیقت کہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں پیش کیا جانے والا یہ پہلا بل تھا، اس موقع کو یادگاربنا دیتا ہے۔ یہ ملک میں جمہوری اصلاحات کی توسیع بھی ہے، جوسابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے شروع کی تھیں۔ تاہم پارٹی خطوط پر سیاسی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی اس خواب کو شرمندہ تعبیرنہ کرسکے، لیکن اب وزیراعظم مودی کی قیادت والی حکومت نے قانون سازاداروں میں خواتین کی موجودگی کو کم ازکم 33 فیصد یقینی بنانے کا کام کیا ہے، اس طرح لوک سبھا میں خواتین کی موجودہ تعداد جو82 ہے، اب بڑھ کر کم ازکم 181 ہوجائے گی۔
ریاستوں کے تناظر میں یہ اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کی اسمبلیوں میں خواتین ایم ایل ایز کی فیصد تشویشناک حد تک کم ہے۔ دسمبر 2022 میں اس وقت کے وزیر قانون کرن رجیجو کی طرف سے پارلیمنٹ میں دیئے گئے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ آسام، اروناچل اور کرناٹک جیسی اہم ریاستوں میں پانچ فیصد سے بھی کم خواتین ایم ایل اے ہیں۔ میزورم اور ناگالینڈ میں 2018 تک ایک بھی خاتون اسمبلی کے لیے منتخب نہیں ہوئی۔ اس معاملے میں، بہار اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں بھی گہرا تفاوت نظر آتا ہے، جو 10 فیصد کی حد کو پار کر چکے ہیں۔ لیکن اس مسئلے کا حل خواتین کے ریزرویشن بل میں مضمر ہے۔
سوال صرف صنفی مساوات کا نہیں ہے۔ یہ ایک قائم شدہ حقیقت ہے کہ جہاں سیاست میں خواتین کی زیادہ نمائندگی ہوتی ہے وہیں نظام اور معاشرے میں بہتری کی طرف رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ بہت سی تحقیقوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ جب زیادہ خواتین سیاسی کردار ادا کرتی ہیں تو اس سے خواتین میں سیاسی شرکت بڑھ جاتی ہے۔
ایک طرح سے یہ کردار معاشرے میں رول ماڈل کا کام کرتا ہے۔ سیاست میں اعلیٰ مقام پر خواتین کی موجودگی کے اثرات کثیر جہتی ہوتے ہیں۔ اول تو یہ، ‘سیاست صرف مردوں کیا شعبہ ہے’ والی تصور کو بھی مسترد کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس سے دوسری خواتین کو بھی تحریک ملتی ہے کہ وہ سیاست کو اپنا کیریئر بنائیں۔ یہ تبدیلی معاشرے پر اپنے دور رس اثرات کے حوالے سے بھی مثبت نظر آتی ہے۔ خواتین کی زندگیوں پر براہ راست اثر ڈالنے والی پالیسیوں اور قانون سازی کی وکالت کے امکانات خواتین سیاستدانوں کی موجودگی سے مزید تقویت پاتے ہیں۔اس سے ایک جامع اور عام لوگوں کی ضروریات کا نمائندہ کرنے والے سیاسی ایجنڈے کو فروغ ملتا ہے، جس کا نتیجہ بالآخر معاشرے اور ملک کی ترقی کی صورت میں نکلتا ہے۔
بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیڈیول کاسٹ اور شیڈیول ٹرائبز کے لیے مخصوص نشستوں میں سے تقریباً ایک تہائی خواتین کے لیے مختص کی جائے گی۔ اپوزیشن دیگر پسماندہ طبقات کی خواتین کے لیے داخلی کوٹہ کا مطالبہ کر رہی ہے، لیکن اسے عمل درآمد میں تاخیر کے حربے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ غور طلب ہے کہ ملک میں بلدیاتی اداروں میں خواتین کے لیے ریزرویشن پہلے ہی نافذ ہے۔ کئی ریاستوں میں پنچایتی راج اداروں میں خواتین کی حصہ داری 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ ہندوستان ایسا کرنے والا دنیا کی واحد بڑی جمہوریت ہے۔ جب ویمن ریزرویشن بل قانون بن جائے گا اور نافذ کر دیا جائے گا تو نہ صرف لوک سبھا اور اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا، بلکہ ہندوستان اسے نافذ کرنے والے دنیا کی واحد بڑی جمہوریت کے طور پرایک منفرد مثال بھی قائم کرے گا۔۔
اس بات کی امید اس لیے بھی زور پکڑ رہی ہے کیوں کہ مرکز کی مودی حکومت نے گزشتہ نو سالوں میں خواتین کی ترقی اور بااختیار بنانے کے لیے کئی بڑے قدم اٹھائے ہیں۔ چاہے وہ تین طلاق کو قانونی طور پر ختم کرنا ہو یا پردھان منتری اجولا یوجنا کے ذریعے خواتین کو گیس سلنڈر فراہم کرنا ہو یا ہر گھر میں نل کا پانی فراہم کرنا اور بیت الخلاء بن وانا ہو، خواتین کو فوج میں مستقل کمیشن دینا ہو یا پردھان منتری ماترووندن یوجنا، ویمن ہیلپ لائن اسکیم وغیرہ۔ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ اور سوکنیا سمردھی جیسی اسکیم شروع کرنا ہو، مودی حکومت نے خواتین کو مایوس نہیں کیا ہے۔
اگرچہ کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ حد بندی اور مردم شماری جیسے طویل عمل کی وجہ سے یہ بل 2029 کے انتخابات سے پہلے موثر نہیں ہو گا، لیکن اس کے باوجود یہ قانون مستقبل کے لیے ایک ایسا مضبوط پلیٹ فارم تو تیار کرے گا ہی جہاں خواتین سیاسی میدان میں زیادہ اہم کردار ادا کرسکیں گی۔ بلدیاتی اداروں میں ملی نمائندگی سے خواتین نے ثابت کیا ہے کہ کس طرح زمینی سطح ہر گھروں میں پدرانہ ذہنیت سے لے کر سرکاری فرائض میں سنجیدگی سے نہ لیے جانے جیسی رکاوٹوں کو توڑ کر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ خواتین صحت، غذائیت، تعلیم، سیکورٹی جیسے کئی مسائل پر جدوجہد کرتی ہیں۔ کووڈ کے بعد خواتین مختلف وجوہات کی بنا پر ملازمت سے باہر ہوئی ہیں۔ ایسے ماحول میں جب خواتین کے لیے بہتر سیاسی نمائندگی کے ساتھ ساتھ محفوظ مستقبل کو یقینی بنانے کا موقع ہمارے سامنے آیا ہے تو اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ ترقی اور اہم شعبوں میں تبدیلی لانے کے لیے خواتین کو اب اپنی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے اور خواتین ریزرویشن بل اس سمت میں ایک اہم اور تاریخی اقدام ہے۔
بھارت ایکسپریس۔