وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا۔ (فائل فوٹو)
تقریباً ایک ماہ پہلے 8 دسمبر کو جب ہماچل پردیش کے انتخابی نتائج آرہے تھے، تب اتار چڑھاؤکے درمیان ریاست میں بی جے پی حکومت کے مستقبل کے ساتھ ایک اورسوال زوروشور سے پوچھا جا رہا تھا۔ یہ سوال پارٹی کے قومی صدرعہدے پر جے پی نڈا کی مدت کارسے متعلق تھا۔ انتخابی مشین کہی جانے والی پارٹی اپنے ہی قومی صدرکی آبائی ریاست میں شکست کا سامنا کرنے جا رہی تھی تو یہ سوال بہت سے لوگوں کواس وقت واجب بھی لگا ہوگا۔ جو یہ سوال پوچھ رہے تھے، انہیں اس ہفتے ہوئی بی جے پی کے نیشنل ایگزیکٹیو کمیٹی کی میٹنگ میں اس کا جواب بھی مل گیا، جو ظاہر ہے ان کی امیدوں کے مطابق نہیں تھا، لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی تھے، جنہیں اس بات کا ذرا بھی خدشہ نہیں تھا کہ بی جے پی آئندہ لوک سبھا انتخابات اپنے موجودہ صدرکی قیادت میں ہی لڑے گی۔ پھر جون 2024 تک مدت میں توسیع کے بعد جے پی نڈا نے پارٹی کارکنان کو جو جذباتی پیغام لکھا، اس سے اس سوال کا جواب بھی مل گیا کہ اپنے ہی آبائی ریاست میں ہار ملنے کے باوجود کیوں جیت کے لئے زمین آسمان ایک کردینے والی پارٹی اتفاق رائے سے انہیں ایک اورموقع دینے کے لئے تیارہوگئی؟ اپنے مخصوص اندازمیں انہوں نے کارکنان کو لکھا کہ ان کے جیسے عام ‘کارکن’ کا قومی صدربننا صرف بی جے پی میں ہی ممکن ہے۔ اس کے بعد انہوں نے 2024 کےعام انتخابات سے پہلے ایک قومی صدر کے طور پر اپنی ذمہ داری کوقبول کیا اورکارکنان سے’غیرمتزلزل عزائم’ کے لئے ‘آشیرواد’ مانگا۔
لیکن صرف شائستگی ہی جے پی نڈا کی پہچان نہیں ہے۔ وہ وزیراعظم نریندرمودی کے بھروسے مند ہیں اورآرایس ایس کی قیادت کے ساتھ بھی بہترتعلقات رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کا نتائج دینے والا طریقہ کار بھی ہے، جس کی کامیابی ان کے چمک کو روشن کرتا ہے۔ بی جے پی نے ان کی مدت کار کے دوران ہوئے 120 اسمبلی ضمنی انتخابات میں سے 73 میں جیت حاصل کی ہے۔ جے پی نڈا کی قیادت میں بی جے پی نے بہارمیں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اورپھرسے مہاراشٹراورہریانہ میں حکومت بنائی۔ پھربی جے پی نے آسام، منی پور، اتراکھنڈ اوراترپردیش اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کی اورگوا میں پہلی باراپنے دم پرحکومت بنائی۔ نڈا کی قیادت میں بی جے پی شمال مشرق میں بھی مضبوط ہوئی جہاں آسام، تریپورہ اورمنی پور میں وہ اقتدارمیں ہے اورمیگھالیہ-ناگالینڈ میں برسراقتداراتحاد کا حصہ ہے۔ حال ہی میں نڈا کی قیادت میں پارٹی نے گجرات میں مودی کے کرشمائی قیادت کو ووٹوں میں تبدیل کیا اور 156 اسمبلی سیٹیں جیت کر ریکارڈ توڑ جیت درج کی۔
اس لئے بھی پارٹی کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے خود وزیر داخلہ امت شاہ نے ‘وزیراعظم نریندرمودی کے کرشمائی قیادت کو بی جے پی کے مینڈیٹ میں بدلنے کا سہرا جے پی نڈا کو دیا اور بھروسہ ظاہرکیا کہ 2024 میں بی جے پی ان کی قیادت میں 2019 سے بھی بڑی جیت درج کرے گی۔ 2019 کی جیت بھارت کے پارلیمانی تاریخ میں بی جے پی کی سب سے بڑی جیت رہی اورتب امت شاہ ہی پارٹی کے صدر تھے۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ بی جے پی میں جے پی نڈا کو بھی اس تنظیمی رفتار اورسرگرمی کو بنائے رکھنے کے لئے دیکھا جاتا ہے، جو امت شاہ کے صدارتی مدت کے دوران پارٹی کی پہچان بنی تھی۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا ماننا ہے کہ تنظیمی تسلسل کا یہ جذبہ 2024 کے لوک سبھا الیکشن سے پہلے نوریاستوں کی اسمبلی انتخابات میں بھی مددگارثابت ہوگی۔
دراصل، جے پی نڈا کے زمینی جڑاؤ اورملنسارشخصیت کو بی جے پی کے تنظیمی کام کاج اورہم آہنگی کے لحاظ سے ایک طاقت کے طورپردیکھا جاتا ہے، جسے ریاستوں میں سال بھرچلنے والے انتخابی عمل میں خود کو تیار رکھنے کے لئے ہمیشہ نئے چیلنجزکی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سال کرناٹک، تریپورہ، میگھالیہ، میزورم، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ نئی اننگ کی شروعات کرتے ہوئے جے پی نڈا نے اپنی پارٹی کے سامنے ان سبھی ریاستوں کے الیکشن جیتنے کا سخت چیلنج رکھا ہے اوروہ خود جانتے ہیں کہ یہ ہدف کتنا پُرچیلنج ہونے والا ہے۔ ساتھ ہی بی جے پی کی نگاہیں ان 160 لوک سبھا سیٹوں پربھی ہیں، جہاں اسے لگتا ہے کہ وہ اپنی امیدوں سے کمزورکارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ ہندوستانی سیاست میں اس طرح کی دوراندیش منصوبہ بندی قابل تحسین رہے۔ اسمبلی انتخابات سے متعلق اتنے بڑے ہدف پر توجہ مرکوزکرنا ایک حد سے زیادہ پُرچیلنج ہو سکتا ہے کیونکہ بی جے پی ابھی تک اسمبلی انتخابات میں لوک سبھا الیکشن جیسے نتائج دینے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے، جہاں مقبولیت میں وزیراعظم مودی یا پھر وسائل، سوشل انجینئرنگ اورالیکشن کا ایجنڈا طے کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
جے پی نڈا کا سب سے بڑا امتحان انتخابی ریاستوں میں پارٹی کو گروپ بازی سے محفوظ کرنا ہوگا۔ مشکل یہ ہے کہ گجرات اور کافی حد تک اترپردیش کو چھوڑکرباقی ریاستوں میں یہ ‘بیماری’ اپنے پیر پھیلا چکی ہے۔ کرناٹک میں بی ایس یدی یورپا سے بسوراج بومئی کی تبدیلی نے داخلی انتشارکو کم نہیں کیا ہے۔ راجستھان اورمدھیہ پردیش میں بھی گروپ بازی کا یہ نمونہ وقت وقت پر سامنے آتا رہتا ہے۔
لیکن نڈا کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ بغیرکسی پریشانی کے سخت فیصلے لینے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ اس میں اتراکھنڈ، آسام، گجرات، تریپورہ اورکرناٹک میں وزیراعلیٰ تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ دیویندرفڑنویس کو ایکناتھ شندے کی شیوسینا کے ساتھ مہاراشٹر میں پارٹی کی اتحادی حکومت میں نائب وزیراعلیٰ بننے کے لئے راضی کرنا شامل ہے۔ جے پی نڈا کے اس ٹریک ریکارڈ کی بنیاد پربی جے پی 2024 کی بڑی لڑائی سے پہلے آئندہ اہم 18 ماہ میں ان سے ایسے اورکئی ‘کمال’ کی امید تو یقیناً کرسکتی ہے۔
جے پی نڈا کے ایک اوراہم زاویے پرکم بحث ہوئی ہے۔ انہوں نے بی جے پی کو زندہ دلی کے ساتھ خدمت کے تصورسے وابستہ کیا ہے۔ وباء کے دوران ان کی پہل پر شروع ہوئی ‘سیوا ہی سنگٹھن’ پروگرام نے متاثرین کو راحت پہنچانے کے ساتھ ہی محروم طبقے کے درمیان بی جے پی کی مقبولیت اورتوسیع میں بڑا کردار نبھایا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ملک کی انتخابی سیاست میں دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کو اس کا کافی فائدہ بھی ملا ہے۔
بہرحال نئی اننگ میں جے پی نڈا نے مشن 2024 کی شروعات کردی ہے اورغازی پورسے اس کا بگل بجنا سیاسی طورپراپوزیشن کے لئے ایک بڑا پیغام ہے۔ غازی پوراترپردیش کی ان 14 لوک سبھا سیٹوں میں شامل ہے، جہاں بی جے پی کو 2019 میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ گزشتہ سال اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی غازی پورکی سبھی سات سیٹوں پرہارگئی تھی۔ پیغام کارکنان کو بھی ہے۔ جہاں بی جے پی کمزور ہے، وہاں لگا دوایڑی چوٹی کا زور۔ واضح ہے کہ جے پی نڈا اپنی نئی مدت کار کو ‘بی جے پی کا امرت کال’ بنانے کا ہدف لے کر ہی آگے بڑھے ہیں۔