آئین کے 75 سال مکمل ہونے پر راجیہ سبھا میں ہورہے بحث میں کانگریس کے قدرآور رہنما،پارٹی وہپ ڈاکٹر سید ناصر حسین نے تفصیلی انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ،جس کی خوب پذیرائی ہورہی ہے۔ ڈاکٹر ناصر حسین نے اپنی بات کے آغاز میں وزیرمالیات نرملا سیتارمن کو نشانہ بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیرخزانہ کو 42 ویں ترمیم پر سب سے زیادہ تکلیف ہے،حالانکہ اس ترمیم میں سوشلزم،سیکورلزم کو آئین کے پریمبل میں جوڑا گیا ہے اور ساتھ ہی بنیادی فرائض کو بھی آئین کا حصہ بنایا گیاہے۔ نرملا سیتارمن کو ہدف تنقید بناتے ہوئے سید ناصر نے مزید کہا کہ اگر ان کی سوچ کے حساب سے ہندوستان چلتا تو نہ جے این یو ہوتا اور نا ہی نرملا سیتارمن اور میں جے این یو میں پڑھ پاتے،ساتھ ہی ہزاروں غریب گھر کے بچے بھی نہیں پڑھ پاتے۔اگر آپ کو سوشلزم سے اتنی ہی دقت ہے تو آپ کی پارٹی کے آئین میں آرٹیکل 1 کے اندر سوشلزم جو لکھا ہے اس کو کیوں نہیں ہٹاتے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ پی ایم مودی سمیت بیشتر بی جے پی کے رہنماوں نے آئین میں ترامیم پر حیرانی جتائی ہے، اس لئے انہیں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آئین میں ترامیم جو کئے گئے ہیں، وہ کیا تھے اور کن کے لئے تھے۔ اس دوران انہوں نے پوری ایک فہرست پڑھ کر سنائی جس میں عوامی فلاح وبہبود کو مدنظر رکھتے ہوئےماضی میں آئینی ترامیم کئے گئے تھے۔
کانگریس راجیہ سبھا رکن ڈاکٹر سید ناصر حسین نے اس دوران کہا کہ میں اس حکومت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اب تک کے جتنی بھی ترامیم کی گئیں ہیں ان میں سے کن پر انہیں اعتراض ہے اور کس سے پریشانی ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ایم مودی نے گیارہ عہد کی بات کی ہے،اس میں انہوں نے کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس کی بات کہی ہے۔ اگر اس میں اتنی ہی ایمانداری ہے تو وہ اڈانی کے معاملے پر جے پی سی کیوں نہیں تشکیل دے رہے ہیں۔ رافیل گھوٹالے میں جے پی سی کیوں نہیں بنائی۔ الیکٹورل بانڈس کی جانچ کیوں نہیں کی گئی، پیگاسس پر جانچ کیوں نہیں کیا؟ اور جن جن گھوٹالوں کا الزام کانگریس حکومت پر لگا یا گیا تھا،ان پر ہم نے جانچ کرائی ،آپ کی حکومت نے بھی جانچ کرائی، کانگریس کو بوفورس میں کلین چٹ ملا،ٹوجی اور کوئلہ گھوٹالہ میں بھی کلین چٹ مل گیا۔ آپ بھی ان تمام گھوٹالوں کی جانچ کرائیے تاکہ دودھ کا دودھ ،پانی کا پانی ہوجائے۔
— Dr Syed Naseer Hussain,MP Rajya Sabha (@NasirHussainINC) December 17, 2024
انہوں نے کہا کہ پی ایم مودی نے کانگریس پر اقتدار کی بھوک کا الزام لگایا ، میں ان سے پوچھنا چاہوں گا کہ کورونا وبا کے دوران مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت کس نے گرائی؟ کرناٹک میں کانگریس جے ڈی ایس کی حکومت کس نے گرائی؟ کیا مہاراشٹر میں ایم وی اے کی حکومت بی جے پی نے نہیں گرائی؟اروناچل میں حکومت گرانے کی کوشش نہیں کی گئی؟ میگھالیہ اور گوا میں بغیر اکثریت کے جوڑ توڑ کے کس نے حکومت بنائی؟یہ حکومت کی بھوک نہیں تو اور کیا ہے؟
سید ناصرحسین نے مزید کہا کہ مجھے حیرانی تب ہوئی جب بی جے پی کے ممبران نے ایوان میں کہا کہ آئین سے اوپر شرعیہ کو رکھا گیا۔ میں ان کا دھیان آرٹیکل25-26 کی طرف دلانا چاہوں گا،جس میں صرف اسلام کے لئے نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لئے مذہبی آزادی کا حق دیا گیاہے،یہاں کسی ایک مذہب کیلئے کوئی تخصیص نہیں ہے۔اس لئے انہیں اپنے ووٹ کی سیاست کیلئے ایسی بات کہنے سے پہلے حقیقت کو جاننا بھی ضرور ی ہے۔ہر ہندوستانی کا کسی نہ کسی مذہب سے تعلق ہوتا ہے۔ ہم تمام لوگ کسی نہ کسی مذہب میں پید اہوئے ہیں ،ہم اس مذہب کو مانتے ہیں اور اسی کے مقدس کتاب کے مطابق عقیدہ رکھتے ہیں ۔یہ ایک الگ چیز ہے ،لیکن میرا یہ بھی ماننا ہے کہ ہندوستان کا مذہب جمہوریت ہونا چاہیے اور اس کا مقدس کتاب آئین ہند ہونا چاہیے۔
کانگریس ایم پی نے کہا کہ ملک میں جب تک کانگریس اور یوپی اے کی حکومت تھی آپسی بھائی چارے اور ملک بھر میں ہم آہنگی کا بول بالا تھا،لیکن آج ہندوستان میں کیا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ۔ آج ہم لوگ تیزی سے اقلیتی مخالف ملک بنتے چلے جارہے ہیں۔ اس حکومت نے مذہب کی بنیا دپر ایک دوسرے کو بانٹنے کی پالیسی اختیار کی ہے،کسانوں کے آئینی حقوق کو دبا رہی ہے اور جامعیت کے تصور کو مسلسل چوٹ پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پولرائزیشن کی خطرناک سیاست ہورہی ہے۔ نفرت اور ڈر کا ماحول بنایا جارہا ہے،اقلیتوں کا آج ویسا ہی حال ہوگیا ہے جیسے نازی جرمنی میں یہودیوں کا تھا۔ اس دوران ڈاکٹر ناصر نے کچھ مثالوں کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کیسے نازی جرمنی اور مودی حکومت میں درجنوں مماثلت ہے۔انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر یہ بھی کہا کہ صرف ہندوستان میں اقلیتوں کا ہی مسئلہ ہمارے لئے اہم نہیں ہے ،بلکہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں پر مظالم سے بھی دکھ ہورہا ہے۔پاکستان،کینڈا یا امریکہ جہاں بھی اقلیتوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے ہم اس کے خلاف مضبوطی سے آواز اٹھانے کیلئے وعدہ بند ہیں تاکہ ہر جگہ اقلیتی آبادی محفوظ اور مضبوط ہوسکے۔
بھارت ایکسپریس۔