Bharat Express

سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن پر سخت تبصرہ

ارون گوئل کی تقرری کی فائل مانگنے پر حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

سپریم کورٹ آف انڈیا

مصنف۔ ونیت نارائن، سینئیر صحافی

الیکشن کمیشن کے ورکنگ اسٹائل کے حوالے سے گزشتہ آٹھ سالوں سے نہ صرف اپوزیشن جماعتوں میں بلکہ جمہوریت پر یقین رکھنے والے ہر ذی شعور شہری کے ذہن میں بھی کئی سوالات اٹھ رہے تھے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے الیکشن کمشنر ارون گوئل کی تقرری کی فائل اچانک مانگ کر حکومت ہند کو بے چین کر دیا ہے۔ لیکن اس کا مثبت پیغام ملک میں گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے متنازعہ کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے، سپریم کورٹ نے ٹی این سیشن کو یاد کیاہے، جو 1990-96 تک ہندوستان کے چیف الیکشن کمشنر تھے، اور کہا، “ملک کو ٹی این سیشن جیسے شخص کی ضرورت ہے”۔

یہ اتفاق ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں میری ان تمام لوگوں سے اچھی دوستی رہی ہے جو چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمشنر بنے ہیں۔ اس دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے انہیں بار بار خبردار کیا کہ ان کی شبیہ شیشن جیسی نہیں بنائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن ایسا کچھ نہیں کیا جس سے کمیشن پر اپوزیشن جماعتوں کا اعتماد بڑھے۔ اسی لیے آج صورتحال یہ آگئی ہے کہ سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن پر تبصرہ کرنا پڑا۔

ارون گوئل کی تقرری کی فائل مانگنے پر حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہاں میں آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ میرے دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ٹی این شیشن کو بھی سپریم کورٹ کی سرزنش برداشت کرنی پڑی۔ اس دن انہیں بہت تکلیف ہوئی تھی۔ حسب معمول جب میں پنڈارا  روڈ  دہلی میں واقع ان کی رہائش گاہ پر گیا تو وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر چند لمحے روئے۔ کیونکہ ان کی انا کو ٹھیس پہنچی تھی۔

میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ بھی آئینی عہدے پر ہیں اس لیے آپ اس کا مقابلہ کریں۔ لیکن ان کے وکلاء نے انہیں سمجھایا کہ جمہوریت کے ہر ستون کا کام ایک دوسرے پر نظر رکھنا ہے۔ کوئی ستون آمر ہو جائے تو جمہوریت کمزور ہو جاتی ہے۔ بات وہیں ختم ہو گئی۔ یہاں اس واقعہ کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے آج  ایگزیکٹو  پر جو تبصرہ کیا یا جس فائل کو طلب کیا گیا، اس کی ٹھوس بنیاد ہے اس لیے حکومت کو پوری ذمہ داری کے ساتھ عدالت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے یہ تبصرہ ایک آئینی بنچ کے سامنے 2018 سے زیر التواء کئی پی آئی ایل کی جاری سماعت کے دوران کیا۔ ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کا انتخاب بھی کالجیم کے عمل سے کیا جائے۔ اس بحث کے دوران بنچ کے چیئرمین جسٹس جوزف نے کہا کہ یہ انتخاب سپریم کورٹ کے ‘ونیت نارائن بمقابلہ یونین آف انڈیا’ کے فیصلے کے مطابق کیوں نہیں ہو سکتا؟ تاکہ سلیکشن کمیٹی کے تین ممبران ہوں، چیف جسٹس آف انڈیا، وزیر اعظم اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر۔

یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کیونکہ الیکشن کمیشن ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے ڈیل کرتا ہے۔ اگر حکومت صرف اپنے ارکان کا انتخاب کرتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ایسے افسران کا انتخاب کرے گی جو اس کی ہدایات پر عمل کریں۔ ویسے ٹی این شیشن بھی موجودہ نظام کے ذریعے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن اس وقت مرکز میں چندر شیکھر کی اقلیت کی حکومت تھی۔ شاید اسی لیے شیشن انتخابی اصلاحات کے لیے وہ سب کچھ کرنے میں کامیاب رہے، جو ان کے لیے ممکن نہ ہوتا اگر وہ کسی ایک بڑی پارٹی کے ذریعے چنے جاتے۔

قابل ذکر ہے کہ ٹی این شیشن سے پہلے عام آدمی کو الیکشن کمیشن کے وجود کا بھی علم نہیں تھا۔ شیشن نے الیکشن کمیشن کو بہت تفصیلی شکل دے دی تھی۔ کیونکہ ان کی اس تاریخی کوشش میں میرا  اور میرے ساتھی صحافی رجنیش کپور کا بھی کوئی نہ کوئی کردار تھا۔ اس لیے ہم اس وقت کے گواہ  ہیں جب مسٹر شیشن نے یہ بے مثال کام کیا۔ ان دنوں انتخابات میں تشدد اور بوتھ پر قبضہ ایک عام سی بات تھی۔ اچانک سیاست میں غنڈوں اور مافیاوٰں کا عمل دخل بہت بڑھنے لگا تھا، جس پر پورے ملک میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ اس ماحول کو بدلنے کے لیے مسٹر شیشن نے انتخابی اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا۔

دراصل، حکومتی نظام کسی بھی انقلابی کام کو آسانی سے نہیں ہونے دیتا، اس لیے شیشن نے انتخابی اصلاحات کو شکل دینے کے لیے ‘تھنک ٹینک’ کے طور پر ‘دیش بھکت ٹرسٹ’ قائم کیا۔ جس کے صدر وہ خود بنے اور ان کی اہلیہ جیالکشمی شیشن اور میں ٹرسٹی بن گئے۔ اس ٹرسٹ کا رجسٹرڈ دفتر ہمارا ‘کالچکر سماچار’ دفتر تھا جو حوض خاص، دہلی میں واقع تھا۔ ملک بھر سے دانشور، میڈیا گروپس کے مالکان، سماجی کارکنان، صنعت کار اور اعلیٰ عہدیداران سیشن کے ساتھ ان موضوعات پر سنجیدہ بات چیت کے لیے ہمارے دفتر میں باقاعدگی سے آتے تھے۔ شیشن اور میں انتخابی اصلاحات کے بارے میں بڑے بڑے جلسے کرنے کے لیے ملک کے کونے کونے میں جایا کرتے تھے۔

 اس  میراتھن کوشش کا بڑا اثر ہوا اور پورے ملک میں الیکشن کمیشن کا ایک نئی اور مضبوط امیج بن گئی۔ لیکن شیشن کے سخت رویے نے سیاسی جماعتوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ جب شیشن جوڑے امریکہ میں ایک ماہ کے قیام پر تھے تو نرسمہا راؤ حکومت نے الیکشن کمیشن کو ایک سے بڑھا کر تین ارکان کر دیا۔ ان دو نئے ارکان کو شیشن کے پروں کو تراشنے کے لیے لایا گیا تھا۔ شیشن نے مجھے امریکہ سے فون کیا اور بتایا، ”نرسیما راؤ نے مجھے بہت دھوکہ دیا ہے۔ مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے۔ کیا کرنا ہے آپ یہ سوچ کر رکھیں، ہم اگلے ہفتے ہندوستان واپس آ رہے ہیں۔

چونکہ میں بھی 1993 سے جین حوالا سکینڈل کو بے نقاب کرکے ملک میں سیاسی پاکیزگی کی جنگ لڑ رہا تھا، اس لیے ان کی آمد پر میں نے تجویز پیش کی کہ ہم ملک کے ہر قصبے، شہر اور صوبے میں ‘پیپلز الیکشن کمیشن’ قائم کریں، جس میں نامور لوگ شامل ہوں۔ ان علاقےکے ان لوگوں کو ممبر بنایا جائے جن کا کبھی کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہ رہا ہو۔ یہ سینکڑوں الیکشن کمیشن اس مقصد کے ساتھ بنائے جانے تھے کہ وہ اپنے علاقے کے ہر الیکشن پر نظر رکھیں اور ان میںاصولِ اخلاقیات لانے کی کوشش کریں۔ شیشن کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور ہم سب نے مل کر اس کا تفصیلی دستورالعمل تیار کیا اور ہزاروں پمفلٹ چھاپ کر پورے ملک میں تقسیم کیے گئے۔ اس کا اچھا اثر ہوا اور ملک کے مختلف حصوں میں ‘عوامی الیکشن کمیشن’ بھی بننے لگے۔

میرا مشورہ یہ تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد شیشن کو ‘پیپلز الیکشن کمیشن’ کا چیف الیکشن کمشنر بننا چاہیے تاکہ ملک میں قائم ان کی برانڈنگ کا فائدہ اٹھا کر انتخابی اصلاحات کو عوامی تحریک کی شکل دی جا سکے۔ لیکن راؤ کے رویہ سے مجروح ہونے کے باوجود شیشن مستعفی ہونے کو تیار نہیں تھے۔ اس لیے اس سمت میں بہت محدود کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاہم، یہ یقینی ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی شبیہ کو بہت بلندیوں تک پہنچایا اور مستقبل کے الیکشن کمیشنوں کے لیے معیار مقرر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج 26 سال بعد بھی سپریم کورٹ کو شیشن کی اہمیت کو اجاگر کرنا پڑا ہے۔

Also Read