Uniform Civil Code: لاء کمیشن آف انڈیا نے ایک بار پھر یکساں سول کوڈ پر مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس کے لیے عوامی اور مذہبی تنظیموں سے رائے طلب کی گئی ہے۔ کمیشن نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 22 ویں لاء کمیشن نے ایک بار پھر یکساں سول کوڈ کے بارے میں تسلیم شدہ مذہبی تنظیموں کے خیالات جاننے کا فیصلہ کیا۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ جو لوگ دلچسپی رکھتے ہیں،وہ اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ کمیشن نے رائے پیش کرنے کے لیے 30 دن کا وقت دیا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس رتوراج اوستھی کی سربراہی میں 22ویں لاء کمیشن نے دلچسپی رکھنے والوں سے کہا ہے کہ وہ 30 دنوں کے اندر ویب سائٹ یا ای میل پر اپنے خیالات پیش کرسکتے ہیں۔ اس سے قبل 21ویں لاء کمیشن نے بھی اس موضوع پر اسٹڈی کیا تھا۔ تب کمیشن نے اس پر مزید بحث کی ضرورت بتائی تھی۔ اس بات کو 3 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب یہ عمل نئے سرے سے شروع کیا جا رہا ہے۔
The 22nd Law Commission of India decided again to solicit views and ideas of the public at large and recognized religious organizations about the Uniform Civil Code. Those who are interested and willing may present their views within a period of 30 days from the date of Notice… pic.twitter.com/s9ZV9WqKU4
— ANI (@ANI) June 14, 2023
یونیفارم سول کوڈ کا کیا مطلب ہے؟
یکساں سول کوڈ یعنی یونیفارم سول کوڈ کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے ہر شہری کے لیے یکساں قانون ہونا ،چاہے وہ کسی بھی مذہب یا ذات سے ہو۔ یکساں سول کوڈ میں شادی، طلاق اور جائیداد کی تقسیم میں تمام مذاہب پر یکساں قانون لاگو ہوگا۔ یعنی کسی بھی مذہب کے اعتبار سے شادی،طلاق نہیں ہوگا اور ناہی کسی مذہبی تعلیم کے مطابق جائیداد کی تقسیم ہوگی ، بلکہ ایک سرکاری قانون اور ضابطہ ہوگا جس پر ہندو مسلم ،سکھ عیسائی سبھوں کو اپنے دینی احکام سے اوپر اٹھ کر عمل کرنا ہوگا۔ ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 44 میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے پورے علاقے میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کو محفوظ بنانے کی کوشش کرے گی۔ تاہم، یہ ایک ہدایتی اصول ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ عدالتوں کے ذریعے نافذ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حامیوں اور مخالفین کے دلائل
یکساں سول کوڈ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ صنفی مساوات، سیکولرازم اور قومی یکجہتی کو فروغ دے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پرسنل لاء کا موجودہ نظام خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ ایسے میں اگر یکساں کوڈ نافذ ہوتا ہے تو پھر سب کے ساتھ انصاف ہوگا۔ وہیں دوسری جانب یو سی سی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی آزادی اور ثقافتی تنوع کی خلاف ورزی کرے گا۔ ان کا استدلال ہے کہ پرسنل لاز کا موجودہ نظام زیادہ لچک اور مختلف کمیونٹیز کی ضروریات کو پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یو سی سی کو نافذ کرنا مشکل ہوگا۔
بھارت ایکسپریس۔