تبدیلی مذہب کی عرضی دیکھ کر سپریم کورٹ ہوا ناراض، کہا - ہر کوئی لے کر آجاتا ہے اس طرح کا پی آئی ایل
جموں وکشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی حد بندی کو سپریم کورٹ نے صحیح ٹھہرایا ہے۔ اس عمل کو چیلنج دینے والی عرضی عدالت نے خارج کردی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ آرٹیکل 370 کے ختم ہونے کے بعد جموں وکشمیر اور لداخ کی تشکیل کا مسئلہ اس کے پاس زیرالتوا ہے۔ اس سماعت میں اس نے اس پہلو پر غور نہیں کیا ہے۔
سری نگر کے رہنے والے حاجی عبدالغنی خان اور محمد ایوب مٹو کی عرضیوں میں کہا گیا تھا کہ حد بندی میں صحیح طریقہ کار نہیں اپنایا گیا ہے۔ مرکزی حکومت، جموں وکشمیر انتظامیہ اورالیکشن کمیشن نے اس دلیل کو غلط بتایا تھا۔ 13 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے اس معاملے پر نوٹس جاری کیا تھا۔ تب بھی عدالت نے واضح کیا تھا کہ سماعت صرف حد بندی پر ہوگی۔ جموں وکشمیر میں آرٹیکل 370 ہٹانے سے متعلق مسئلے پرغور نہیں کیا جائے گا۔
سال 2022 میں فیصلہ رکھا گیا تھا محفوظ
گزشتہ سال یکم دسمبر کو جسٹس سنجے کشن کول اور ابھے ایس اوکا کی بینچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ سماعت کے دوران عرضی گزار فریق نے دلیل دی تھی کہ جموں وکشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی حد بندی کے لئے سپریم کورٹ کی سابق جج جسٹس رنجنا دیسائی کی صدارت میں کمیشن کی تشکیل آئینی التزامات کے لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔
عرضی گزار نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ حد بندی میں اسمبلی حلقوں کی سرحد بدل گئی ہے۔ اس میں نئے علاقوں کو شامل کیا گیا ہے۔ سیٹوں کی تعداد 107 سے بڑھا کر114 کردی گئی ہے، جس میں پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی اوکے) کی بھی 24 سیٹیں شامل ہیں۔ یہ جموں وکشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے سیکشن 63 کے مطابق نہیں ہے۔
مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالسٹر جنرل
مرکزی حکومت کی طرف سے جواب دیتے ہوئے سالسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 2, 3 اور 4 کے تحت پارلیمنٹ کو ملک میں نئے جج یا ایڈمنسٹریٹیو یونٹ کی تشکیل اور اس کے نظام سے متعلق قانون بنانے کا حق دیا گیا ہے۔ اسی کے تحت پہلے بھی حد بندی کمیشن کی تشکیل کی جاتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ عرضی گزار کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ حد بندی صرف جموں وکشمیر میں ہی نافذ کی گئی ہے۔ اسے آسام، اروناچل پردیش، منی پور اور ناگا لینڈ کے لئے بھی شروع کیا گیا ہے۔
-بھارت ایکسپریس