Bharat Express

Madan Das Devi: سادگی اور نرم گفتاری مدن داس دیوی کی نمایاں خصوصیت، تنظیمی صلاحیتوں سے بھی تھے مالا مال

مدن داس جی کا ایک شاندار تعلیمی ریکارڈ تھا اور اس ریکارڈ نے ان کے کام کرنے کے پیچیدہ طریقے کو بھی نئی شکل دی۔ ایک شوقین قاری جب بھی کوئی اچھی چیز پڑھتا تو اسے اس شعبے میں کام کرنے والے متعلقہ شخص کو ارسال کردیتا۔ مجھے اکثر ایسی چیزیں حاصل ہوئی ہیں۔

سادگی اور نرم گفتاری مدن داس دیوی کی نمایاں خصوصیت، تنظیمی صلاحیتوں سے بھی تھے مالا مال

تحریر: نریندر مودی، وزیر اعظم، بھارت

کچھ روز قبل ، جب ہم نے شری مدن داس دیوی جی کو کھویا تھا، اس وقت مجھ سمیت لاکھوں کارکنان افسردہ  تھے۔ یہ خیال کہ مدن داس جی جیسی اثر انگیز شخصیت اب ہمارے درمیان نہیں ہے، ایک تلخ حقیقت ہے جس کا ہمیں سامنا کرنا ہے۔ پھر بھی، ہمیں اس بات سے تسلی ملتی ہے کہ ان کا اثر زندہ رہے گا۔ ان کی تعلیمات اور اصول آگے کے سفر میں ترغیب اور رہنمائی کی مشعل راہ کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔

مجھے کئی برسوں تک مدن داس جی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے ان کی سادگی اور نرم گفتاری کو بہت قریب سے دیکھا۔ وہ ایک بہترین تنظیمی آدمی تھے، اور میں نے بھی تنظیم میں کام کرتے ہوئے کافی وقت گزارا۔ لہٰذا، یہ فطری بات ہے کہ ہماری گفتگو میں تنظیمی ترقی اور کاریہ کرتا کی ترقی سے متعلق پہلو باقاعدگی سے نمایاں ہوتے رہے۔ ایسی ہی ایک گفتگو کے دوران میں نے ان سے دریافت کیا کہ ان کا اصل تعلق کہاں سے ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ مہاراشٹر کے سولاپور کے قریب ایک گاؤں سے ہیں، اور ان کے آباؤ اجداد کا تعلق گجرات سے تھا۔ تاہم وہ اس جگہ سے واقف نہیں تھے جہاں سے ان کے آبا و اجداد کا تعلق تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میری ایک استانی ہیں جن کی کنیت دیوی ہے اور وہ استانی وس نگر سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعد ازاں ، وہ وس نگر اور واڈ نگر بھی گئے۔ ہماری گفتگو بھی گجراتی میں ہوئی۔

مدن داس جی کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک خاصیت ان کی لفظوں سے آگے بڑھنے اور ان الفاظ کے پس پشت جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت تھی۔ نرم گفتار اور ہمیشہ مسکراتے رہنے والے، وہ گھنٹوں طویل گفتگو کو چند جملوں میں بھی سمیٹ سکتے تھے۔

مدن داس جی کی زندگی کا سفر ان عجائبات کو بیان کرتا ہے جو اس وقت حاصل کیے جاسکتے ہیں جب نفس کو ترجیح نہ دے کر اجتماعیت کو اہمیت دی جائے۔ پیشے کے لحاظ سے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، وہ ایک آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے، لیکن انہیں کچھ اور کرنا تھا یعنی – ذہنوں کی تشکیل اور ہندوستان کی ترقی کا کام۔

مدن داس جی کا بھارت کے نوجوانوں پر پختہ اعتماد تھا۔ وہ بھارت کے طول و عرض میں نوجوانوں سے رابطہ قائم کر سکتے تھے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں، انہوں نے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کو مضبوط کرنے میں خود کو وقف کر دیا۔ اس سفر میں ان کا ایک ہم عصر یشونت راؤ کیلکرجی تھے۔ وہ ان سے بہت متاثر تھے اور اکثر ان کے بارے میں بات کرتے تھے۔ مدن داس جی نے ہمیشہ اے بی وی پی کے کام میں زیادہ سے زیادہ طالبات کو شامل کرنے اور سماجی بہبود میں تعاون دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے ساتھ انہیں بااختیار بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے اکثر کہا کہ جب طالبات کسی اجتماعی کوشش میں شامل ہوتی ہیں تو وہ کوشش ہمیشہ زیادہ حساس ہوتی ہے۔ مدن داس جی کے لیے طلبا سے محبت ہر چیز سے بڑھ کر تھی۔ وہ ہر وقت طلبا کے درمیان رہتے لیکن پانی میں کمل کی طرح یونیورسٹی کی سیاست میں کبھی شامل نہیں ہوتے۔

میں ایسے متعدد قائدین کے بارے میں سوچتا ہوں جنہیں مدن داس جی سے اپنی چھوٹی عمر میں رہنمائی حاصل ہوئی اور اسی وجہ سے انہیں عوامی زندگی میں عروج حاصل ہوا ۔ لیکن اس بارے میں بلند و بانگ دعوے کرنا ان کی فطرت میں نہیں تھا۔

آج کل، عوامی انتظام کاری ، ٹیلنٹ مینجمنٹ، اور مہارت کی انتظام کاری کے تصورات بہت مشہور ہیں۔ مدن داس جی لوگوں کو سمجھنے اور ان کی صلاحیتوں کو تنظیمی اہداف کے مطابق بنانے کے ماہر تھے۔ وہ بہت خاص تھے کیونکہ وہ لوگوں کی صلاحیتوں کو سمجھتے تھے اور اس کی بنیاد پر کام تفویض کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اس بنیاد سے اتفاق نہیں کیا کہ لوگوں کو ان کی ضروریات کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ اس لیے اگر کوئی نوجوان کاریہ کرتا کوئی نیا آئیڈیا رکھتا تھا، تو مدن داس جی اس کے لیے واضح آواز بن جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے بہت سے افراد اپنی اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اثرات مرتب کرنے کے لیے خود حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ لہذا، تنظیمیں ان کی قیادت میں بڑے پیمانے پر آگے بڑھیں اور اپنے پیمانے اور دائرہ کار میں وسعت اختیار کر جانے کے باوجود ہم آہنگ اور موثر بنی رہیں۔

یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ مدن داس جی کا سفری شیڈول ازحد مصروف تھا۔ اپنے فرائض کے علاوہ ، جب لوگوں سے ملاقات کی بات آتی تھی تو وہ منتخبہ لوگوں سے ہی ملاقات کرتے تھے اور ملاقات کے لیے ہمیشہ اچھی طرح سے تیار رہتے تھے۔ لیکن ان کے پروگرام ہمیشہ سادہ ہوتے تھے جو لوگوں پر گراں نہیں گزرتے تھے، کبھی کسی کاریہ کرتا پر بوجھ نہیں ہوتے تھے۔ یہ عادت آخری دم تک ان کے لیے لازم و ملزوم رہی۔ انہوں نے طویل بیماریوں کا مقابلہ کیا، لیکن جب میں ان سے اس کے بارے میں پوچھتا تو وہ متعدد پوچھ گچھ کے بعد ہی اس بارے میں بات کرتے۔ جسمانی تکلیف کے باوجود وہ خوش رہتے۔ بیماری میں بھی وہ مسلسل یہ سوچتے رہتے تھے کہ وہ ملک اور معاشرے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔

مدن داس جی کا ایک شاندار تعلیمی ریکارڈ تھا اور اس ریکارڈ نے ان کے کام کرنے کے پیچیدہ طریقے کو بھی نئی شکل دی۔ ایک شوقین قاری جب بھی کوئی اچھی چیز پڑھتا تو اسے اس شعبے میں کام کرنے والے متعلقہ شخص کو ارسال کردیتا۔ مجھے اکثر ایسی چیزیں حاصل ہوئی ہیں۔ انہیں معاشیات اور پالیسی کے معاملات کی اچھی سمجھ تھی۔ انہوں نے ایک ایسے بھارت کا تصور پیش کیا جہاں کوئی بھی شخص دوسروں پر منحصر نہ ہو اور جہاں ہر فرد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے، خود کو بہتر بنانے اور ترقی کے مواقع حاصل کرتے ہوئے بااختیار بنے۔ مدن داس جی نے ایک ایسے بھارت کا تصور پیش کیا جہاں خود انحصاری صرف ایک مقصد نہ ہو بلکہ ہر شہری کے لیے ایک زندہ حقیقت ہو، جس کی جڑیں باہمی احترام، بااختیار بنانے اور مشترکہ خوشحالی کے اصولوں سے وابستہ ہوں۔ اب، جیسا کہ بھارت مختلف شعبوں میں زیادہ سے زیادہ خود انحصار ہوتا جارہا ہے، اس سے زیادہ خوشی کی بات  کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

آج جبکہ  ہماری جمہوریت فعال ہے، نوجوان پراعتماد ہیں، معاشرہ آگے کی جانب دیکھ رہا ہے، اور قوم امید اور رجائیت سے لبریز ہے، شری مدن داس دیوی جی جیسے لوگوں کو یاد رکھنا ضروری ہے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی خدمت اور ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے وقف کردی۔

بھارت ایکسپریس۔