Bharat Express

Providing Capital for Climate action: موسمیاتی کاروائی اور دیگر ہمہ گیر ترقیاتی اہداف کے لئے سرمایہ فراہمی

موسمیاتی تبدیلی دنیا کے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔ عالمی اقتصادی آؤٹ لک 2022 نے تخمینہ لگایا ہے کہ تقریباً 4 ٹریلین امریکی ڈالر کےبقدر سرمایہ سالانہ طور پر 2030 تک قابل احیاء توانائی میں لگایا جانا چاہئے تاکہ ممالک کے ذریعہ اعلان کردہ خالص صفر اخراج تک پہنچا سکے۔

تحریر: وی اننت ناگیشور، چاندنی رینا، گیتوجوشی

ہمہ گیرترقی نہ صرف یہ کہ ہماری آئندہ پیڑھیوں کی خیروعافیت کے لیے، اورایکونظام کے تحفظ کے لیےلازمی ہے بلکہ موجودہ پیڑھی کی توقعات اورخواہشات کی تکمیل کے لیے بھی ضروری ہے۔ جی 20 کا ہمہ گیرمالی ورکنگ گروپ (ایس ایف ڈبلیو جی) ان اختیارات کا حامل ہے کہ وہ پیرس معاہدے اور2030 کے ایجنڈے برائے ہمہ گیر ترقیات کے سلسلے میں سرمایہ فراہمی اور پالیسیوں کواہداف کے ساتھ مربوط کر سکے۔ ہمہ گیر مالی ایجنڈے کے سلسلے میں بھارت کا نظریہ اس حقیقت کے طابع ہے کہ جس پیمانے پر سرمایہ فراہم کیا جائے اور رعایتی بنیادوں پر یہ فراہمی موسمیات کے سلسلے میں اہم حصولیابی کے لیے بنیاد ہے، ساتھ ہی ساتھ دیگر ہمہ گیر ترقیات کے لیے بھی ضروری ہے۔ مضبوط اقتصادی نمو کی بنیاد پر شمولیت کو مستحکم بناتے ہوئے لچک قائم رکھتے ہوئے اور ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے عمل کرنا بھارت کی ترقیاتی حکمت عملی سے ہم آہنگ رہا ہے۔ موسمیاتی اور ہمہ گیر سرمائے میں اضافہ اور صلاحیت سازی بھارت کی جی 20 صدارت کے دوران توجہ کے مراکز رہے تھے۔
موسمیاتی تبدیلی دنیا کے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔ عالمی اقتصادی آؤٹ لک 2022 نے تخمینہ لگایا ہے کہ تقریباً 4 ٹریلین امریکی ڈالر کےبقدر سرمایہ سالانہ طور پر 2030 تک قابل احیاء توانائی میں لگایا جانا چاہئے تاکہ ممالک کے ذریعہ اعلان کردہ خالص صفر اخراج تک پہنچا سکے۔ تاہم، اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت معمولی مقدار میں اصل موسمیاتی سرمایہ فراہمی گلوبل ساؤتھ کے لیے کی گئی ہے یعنی ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی میں ان کے غالب کردار کے باوجود ان کا تعاون بہت کم رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک اپنے ترقیاتی ایجنڈے اور ہمہ گیر ترقیاتی اہداف کو نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ 2030 کےایجنڈے کے حصول کے لیے اب صرف 7 برس باقی رہ گئے ہیں اور ترقی پذیر ممالک کے لیے 3.9 ٹریلین امریکی ڈالر کےبقدر کی سالانہ فراہمی کے سرمایہ فاصلے کو ایس ڈی جی سرمایہ فراہمی کے لیے بہم پہنچانے کی ضرورت ہے، بھارتی صدارت نے موسمیاتی سرمایہ فراہمی کے کام کے لیے کوششیں شروع کیں ، دیگر ایس ڈی جی اداروں کو جی 20 ایس ایف ڈبلیو جی کی ترجیحات کے مطابق سرمایہ فراہمی اور صلاحیت سازی کے لیے تیار کیا۔
ابتداً، موسمیاتی سرمائے کے تحت توجہ دو موضوعات پر مرکوز کی گئی ہے: الف) موسمیاتی سرمائے کے لیے بروقت اور وافر وسائل کی بہم رسانی اور ب) تیز رفتار ترقی اور سبز اور کم اخراج والے کاربن پر مبنی تکنالوجیوں کو اختیار کرنے کے لیے لازمی تبدیلی کے پالیسی اقدامات اور مالی ذرائع کی بہم رسانی۔ گفت و شنید کے توسط سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سرکاری رعایتی فنڈنگ میں رونما ہونے والی قلت سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے موسمیاتی کاروائی کے لیے سرمایہ بہم رسانی کے سلسلے میں کثیر سطحی ترقیاتی بینکوں (ایم ڈی بی) کے بنیادی کردار کو اجاگر کیا۔ ایم ڈی بی دیگر ترقیاتی پروجیکٹوں کے لیے درکار سرمائے کے معاملے میں کسی طرح کا سمجھوتہ کیے بغیر مؤثر وسائل تخصیص کا محرک ثابت ہو سکتے ہیں اور خدشات سے مبرا کرکے نیز رعایتی شرح پر وسائل کی بہم رسانی کے لیے اختراعی ذرائع اختیار کرکے نجی شعبے کو بھی اس عمل میں شریک کر سکتے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ایک کم کاربن اخراج والی ترقی کا لائحہ عمل وضع کرنے کے سلسلے میں غیر قیمت پالیسی لیولرس اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ پہلو بھی سابق جی 20 صدارتوں میں تقریباً مخصوص توجہ کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کے تناظر میں مساویانہ طور پر اہمیت کا حامل رہا۔
مزیر برآں، حالیہ برسوں میں نجی شعبے کی جانب سے افزوں طور پر مالی ذرائع مثلاً اثرات پر مبنی بانڈز، ہمہ گیریت سے منسلک بانڈ وغیرہ کے توسط سے سماجی خدمات میں سرمایہ کاری کا عمل کیا جاتا رہاہے، تاہم نوزائیدہ سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرنے والا ماحول جیسے عناصر اور سماجی ایس ڈی جی کو مربوط کرنے کے سلسلے میں ناکافی بیداری، جس کا تعلق سرمایہ کاروں کے ذریعہ کی جانے والی سرمایہ کاری پالیسیوں سے ہے، نے نجی مالی آمد کو سماجی شعبے میں لگاتار پیمانے پر آنے سے روکے رکھا۔ ان چنوتیوں کو تسلیم کرتے ہوئے، جی 20 اراکین نے اپنی توجہ ان راستوں پر مرکوز کی جن پر سماجی اثرات سرمایہ کاری ذرائع کو وسیع پیمانے پر اختیار کرکے نجی سرمائے کو بڑے پیمانے پر حاصل کیا جا سکتاہے، تاکہ سماجی شعبوں میں سرکاری سرمایہ کاری میں اضافہ ہو سکے۔ ایس ایف ڈبلیو جی سفارشات کا مقصد اختراعی طریقہ ہائے کار کو پروان چڑھانا اور ایسے مخصوص سرمایہ کاری ذرائع کو بروئے کار لانا ہے جو لین دین کی لاگت کم کر سکیں اور ایس ڈی جی ، مثلاً صحت اور تعلیم کے لیے سرمایہ فراہمی کاراستہ ہموار کر سکیں۔ بہتر نوعیت کے حامل اعداد و شمار کی تجاویز اور مختلف طریقہ ہائے کار کے سلسلے میں رپورٹنگ اور افزوں بین اثر انگیزی، ساتھ ہی ساتھ مخصوص ممالک کے حالات اور صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے لچیلے پن کے تحفظ کا عمل برقرار رکھتے ہوئے اگر کام کیا جائے تو نجی سرمایہ آمد حیاتیاتی تنوع سے مربوط اور فطرت کے لیے مثبت سرگرمیوں کے لیے یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
آخر میں، وافر آگہی کے فقدان اور ہنرمند پیشہ واران کی عدم موجودگی، خصوصاً چھوٹی اور اوسط صنعتی اکائیوں میں اس طرح کا ماحول ہم گیر معیشت کی جانب عالمی تغیر کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ورکنگ گروپ نے دیگر امور کے علاوہ بجا طور پر مالی پروڈکٹ اختراع، تغیر، منصوبہ بندی اور مختلف طریقہ ہائے کار میں ہمہ گیر ارتباط کے سلسلے میں صلاحیت سازی کی ضرورت کی شناخت کی۔ اس کے نتیجے میں جی 20 تکنیکی امداد منصوبہ عمل اور اس کے نفاذ کا میکنزم جو اس سال وضع کیا گیا ہے، وہ ایک ایسا لائحہ عمل فراہم کرتا ہے جس کے ذریعہ آگہی میں واقع فاصلے کو کم کیا جا سکتا ہے اور ایک مزید مبنی بر شمولیت اور مؤثر تغیر کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
نئی دہلی کے قائدین کے اعلانیے نے واضح طور پر یہ تسلیم کیا ہے کہ ایک مستقبل کی تصوریت مختلف حکومتوں کے مابین اشتراک کے بغیر نہیں حاصل کی جا سکتی اور اسی صورت میں ترقی پذیر ممالک کے لیے سرمائے کی افزوں فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ جی 20 ہمہ گیر سرمایہ فراہمی کا کام مثالی طور پر نمو پذیر مالی ضروریات کی روشنی میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے جو موسمیاتی کاروائی کے لیے درکار ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ سرمایہ دیگر ایس ڈی جی کے لیے نیز دنیا کے مالامال حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے بھی درکار ہے۔ بھارتی صدارت کےتحت اس سال کا کام گلوبل ساؤتھ کے مقاصد کے عین مطابق اور ضروریات اور ترجیحات کے لحاظ سے جی 20 کے مستقبل کے راستے کے لیے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرے گا۔

(وی۔ اننت ناگیشورن چیف اقتصادی مشیر ہیں چاندنی رینا اور گیتو جوشی وزارت خزانہ کے تحت اقتصادی امور کے محکمے میں اقتصادی مشیر ہیں۔ ان تمام قلم کاروں کے نظریات ان کے اپنے ذاتی ہیں۔)

   -بھارت ایکسپریس

Also Read