Bharat Express

Progress towards economic independence: معاشی خودمختاری کی جانب پیش قدمی

اس مضمون میں گجرات اور مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والی چار خواتین کاروباری پیشہ وروں کو متعارف کروایا گیا ہے جنہوں نے امریکی محکمہ خارجہ کی کفالت یافتہ تربیت کے بعد معاشی آزادی حاصل کی۔

معاشی خودمختاری کی جانب پیش قدمی

کریتیکا شرما

خواتین کو معاشی ترقی میں حصہ دار بنانے سے ان کے کنبوں اور ان کےطبقات کی زندگیوں پر واضح اثر پڑ سکتا ہے اور اس سے پائیدارذریعہ معاش پیدا کرنے میں مدد مل سکتی  ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی کفالت یافتہ  پہل دی اکیڈمی آف ویمن انٹرپرینرس (اے ڈبلیو ای) کاروباری  پیشہ وری سے وابستہ خواتین کو ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور کامیاب کاروبار شروع کرنے اور اسے بڑے پیمانے پرفروغ دینے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اے ڈبلیو ای کے ذریعےشریک خواتین بنیادی کاروباری مہارتیں سیکھتی ہیں، تجربہ کار تاجروں اور مقامی مربیوں کے ساتھ بات چیت کرتی ہیں اور دوسرے تاجروں  کے ساتھ رابطہ سازیکرتی ہیں۔

سونل پاریکھ، رشیدہ سیّد، سویتا ڈکلے اور مِتّل بین پرجاپتی گجرات اور مہاراشٹر میں سیلف ایمپلائڈ ویمینس ایسوسی ایشن (سیوا) سے تعلق رکھنے والی  چار خواتین کاروباری  پیشہ ور ہیں جنہوں نے اے ڈبلیو ای کے ساتھ اپنے کاروباری سفر کا آغاز کیا۔ وہ اب دیگر خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے میں راہنمائی کرتی ہیں کیونکہ وہ اپنے طبقات  میں اور اس کے آس پاس خواتین کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا کررہی ہیں۔

جدوجہد کی کہانی

مِتّل بین پرجاپتی گجرات کے احمد آباد میں رہائش پذیر اپنے تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑی  ہیں۔ ان کا کنبہ مٹی کے برتن تیار اور فروخت کرتا ہے۔ پرجاپتی نے بچپن سے ہی اپنے والد کو مٹی کے برتن بناتے ہوئے دیکھا تھا اور اس کاروبار کو چلانے کے طریقوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں ’’میں جانتی تھی کہ میں اپنے خاندانی کاروبار کو آگے بڑھانے میں مدد کرنا چاہتی ہوں۔ میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ میرے والد مجھ پر ناز کریں ۔‘‘

تاہم ان کی موت کے بعد گھر چلانے کا بوجھ پرجاپتی، ان کی والدہ اور بہن بھائیوں پر آن پڑا۔ وہ کہتی ہیں ’’ہمارا ایک روایتی پیشہ ہے۔ اپنے والد کی موت کے بعد میں، میری والدہ اورچھوٹی بہن مٹی کے برتن بنانے کے اس کاروبار کو چلا رہے ہیں اور اسے فروغ دے رہے ہیں۔‘‘پرجاپتی کو ملنے والی اے ڈبلیو ای کی تربیت نے انہیں مسابقتی بازار میں ٹکے رہنے کی بنیادی باتیں سکھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

پرجاپتی کہتی ہیں ’’میں نے سیکھا کہ کاروباری منصوبے کیسے تیار کیے جاتے ہیں، اگر کوئی منصوبہ کام نہیں کرتا ہے تو کیا کرنا ہے اور پلان بی کا استعمال کیسے کرنا ہے۔‘‘وہ ایک مثال کے ساتھ اپنی کاروباری حکمت عملی کی وضاحت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ہمارا مٹی کے برتن کا کاروبارگرچہ موسم گرما میں زیادہ چلتا ہے لیکن مٹی سے بنی  مصنوعات (جن کو بعد میں آگ پر پکایا بھی گیا ہو) سال بھرفروخت ہوتی ہیں۔‘‘ وہ ہنستے ہوئےکہتی ہیں ’’اس سے ہمیں اچھا منافع ملتا ہے۔ اور اگر پلان اے اور بی دونوں کام نہیں کرتے ہیں تو ہمارے پاس پلان سی بھی ہے۔‘‘

پرجاپتی کا کہنا ہے کہ جو خواتین اپنے کاروبار میں جدّت لانا چاہتی ہیں انہیں خود پر اعتماد کرنا چاہیے، نئے خیالات پر کام کرنا چاہیے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اس طرح استعمال کرنا چاہیے جس سے انہیں فائدہ ہو۔

خاتون تاجر پیدا کرنا

سیوا کا قیام ۱۹۷۲ ءمیں دیہی خواتین کو خود کفیل بنانے کے لیے عمل میں آیا ۔ سیوا میں کام کاج کی دیکھ بھال کی سربراہ سونل پاریکھ کہتی ہیں کہ اس (سیوا) نے ۲۰۱۵ءمیں گاندھی نگر میں کملا بیکری کا آغاز کیا تاکہ ’’بھلادی گئیں کھانے کی مصنوعات‘‘ کو دوبارہ بازار میں لایا جا سکے۔

ابتدائی طور پر پاریکھ اور ان کی ٹیم نے غذائی صنعت  میں بنیادی تربیت حاصل کی اور پھر انہوں نے ’فِنگرملیٹ‘(مشرقی ہند میں پیدا ہونے والے باجرے کی ایک قسم جس کا آٹا قدرے تلخ ہوتا ہے)، گیہوں اور جوسے بسکٹ تیار کرنا شروع کیا۔۲۰۲۱ءمیںاے ڈبلیو ای کے ۱۳ تربیتی ماڈیولس کے ذریعے ٹیم نے مارکیٹنگ، برینڈنگ، پروموشن، مصنوعات کو صارفین تک پہنچانے، پیشکش اور اپنے کاروبار کے لیے سوشل میڈیا مارکیٹنگ کی بنیادی باتیں سیکھیں۔

سیوا سے ۱۹ برس سے وابستہ پاریکھ کہتی ہیں’’اے ڈبلیو ای کی اس تربیت پر مجھے ناز ہے۔ میں نے۲۰۰۴ءمیں ایک گھریلو خاتون کے طور پر سیوا میں شمولیت اختیار کی لیکن اب میں دوسری خواتین کو کاروباری مالک بننے کے لیے رہنمائی کرنے کے قابل ہوں۔ میں اس نظام  کا حصہ بن کر یہاں کی زیادہ سے زیادہ خواتین کو خود کفیل بنانا چاہتی ہوں۔‘‘

مقامی مصنوعات کو فروغ دینا

گجرات کے پٹن میں رشیدہ سیّد ’ہرکی گارمنٹس ‘میں روز مرہ کے کام کاج دیکھنے والے شعبے کی سربراہ ہیں۔ یہ ایک دیہی فرم ہے جس کا آغاز ۲۰۱۲ءمیں سیوا کی ڈائریکٹر ریما ناناوتی کی مدد سے ہوا تھا۔

رشیدہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے والد اور بڑی بہن کے کہنے پر ۱۹۹۶ءمیں سیوا میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جب انہوں نے کام شروع کیا تو انہوں نے صرف سلائی کی بنیادی تربیت کے کورس میں حصہ لیا تھا۔دہائیوں بعد جب سیوا نے اے ڈبلیو ای تربیت کی سہولت فراہم کی تو رشیدہ اور ان کی ٹیم نے مارکیٹنگ، پروڈکشن اور کاروباری منصوبوں کی تیاریوں سے متعلق مہارتیںبھی سیکھیں۔

اے ڈبلیو ای کی تربیت کے بعد’ ہرکی ‘سے وابستہ ٹرینر ماہرہ کو ایک موقع نظر آیا۔ وہ کہتی ہیں ’’ہم نے سوچا کہ کیوں نہ سوشل میڈیا پر ہرکی کی مارکیٹنگ کی جائے۔ ’ہرکی‘ میں ہمارے ساتھی باری باری سے ماڈل بنتی ہیں اورایک دوسرے کی  تصاویر کھینچتی ہیں اور ایسا کرکےوہ لطف اندوز بھی ہوتی ہیں۔‘‘

رشیدہ کے لیے ’ہرکی‘  کی کامیابی ان کی اپنی کامیابی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’میں بہت سی خواتین کو تربیت دے رہی ہوں اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کر رہی ہوں۔ یہ چیش مجھے فخرکا احساس دلاتی ہے۔ہمارا ایک خواب ہے کہ ہمارے کپڑے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں پہنے جائیں۔‘‘

خودمختاری کی تلاش

سویتا ڈکلے مہاراشٹر کے اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والی ایک کسان اور کاروباری خاتون ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کنبے کی معمولی کمائی سے گھر چلانا اور بچوں کو پڑھانا مشکل تھا۔ وہ آگے کہتی ہیں ’’لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ دوسری خواتین کی طرح میں بھی ایک کاروبار شروع کروں گی۔‘‘

ڈکلے کا خاندان دال کی کاشتکاری کرتا ہے۔ اے ڈبلیو ای کی تربیت کی بدولت اب وہ اپنی فصل کی خود پیکیجنگ، لیبلنگ اور اس کی فروخت کرتی  ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ میں نے اے ڈبلیو ای ٹریننگ کے دوران بہت کچھ سیکھا۔ جیسے کاروباری مرکز تلاش کرنا، اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنا اور اسے بازار تک پہنچانا، قیمتوں کا تعین کرنا وغیرہ۔‘‘

تربیت نے ڈکلے کو کاروبار کھڑا کرنے اور اسے کامیاب بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ وہ مالی خودمختاری کی خواہش مند دوسری خواتین کے لیے بھی ایک تحریک کا درجہ رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میری جیسی بہت سی خواتین نے کاروبار چلانے کی تربیت میں حصہ لیا اور ہم سب مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ میرے لیے فخر کی بات ہے۔ میں مستقبل میں اپنے کاروبار کو بڑھانا چاہتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ تمام گھروں میں میری جیسی خودمختار خواتین ہوں۔‘‘

بشکریہ اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

بھارت ایکسپریس۔