مد و جزرکی تباہ کاریوں کو روکنا
مائیکل گیلنٹ
ممبئی میں واقع ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسس (ٹی آئی ایس ایس) کے اسکول آف ہیبی ٹیٹ اسٹڈیز کی پروفیسر اور ڈین منجولا بھارتی کہتی ہیں ’’عالمی موسمیاتی تبدیلی سےکیرل کے ساحلی علاقوں میں کئی طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سب سے کم دھیان دیا جانے والا لیکن سب سے زیادہ سنگین مسائل میں سے مد وجزر کے نتیجے میں آنے والا سیلاب ہے۔‘‘
بھارتی کہتی ہیں کہ کیرل کے ساحلی علاقوں میں مدو جزر کے نتیجے میں آنے والا موسمی سیلاب پہلے دو ماہ تک وقوع پذیر ہوتا تھا مگر اب اس کی شدت اور حجم دونوں میں اضافے کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ ‘‘ مدو جزر کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کا دورانیہ اب نصف سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں ساحل سے ۳۰ کلو میٹر تک کا علاقہ تباہ ہو سکتا ہے اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں مجروح ہوسکتی ہیں۔ بھارتی کا خیال ہے
’’ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو تسلیم کرنا اور ان سے نمٹنے کی تدابیر پر عمل کرنا موسمیاتی تبدیلی کے عہد میں ایک اہم حفاظتی قدم ہے۔‘‘
فلبرائٹ۔نہرو فیلو بھارتی ان ماہرین میں سے ایک تھیں جنہیں ’’ساحلی کیرل میں موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے مد وجزر کے نتیجے میں بڑھتے سیلاب کے خطرے کے تئیں طبقاتی لچیلے پن کی مشترکہ تعمیر‘‘نامی پروجیکٹ کی قیادت کرنے والی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ چنئی کے امریکی قونصل خانہ کے المنائی انگیجمنٹ اننوویشن (اے ای آئی ایف)نے اس پروجیکٹ کی کفالت کی تھی۔ اس پروجیکٹ کو ایم ایس سوامی ناتھن ریسرچ فاؤنڈیشن کے ذریعہ چلایا گیا اور اس کی قیادت سی جے رامن نے کی، جو فلبرائٹ۔کلام فیلو ہونے کے ساتھ ساتھطبقات پر مبنی ماحولیاتی تحقیقاتی فرم ’ای کیو یو آئی این او سی ٹی‘ کے شریک بانی بھی ہیں۔ امریکی حکومت کے تبادلہ پروگراموں کے سابق طلبہ کی قیادت میں اے آئی ای ایف پروجیکٹوں نے سابق طلبہ کے تعاون میں اضافہ کیا ہے اور دنیا بھر کے طبقات کو فائدہ پہنچایا ہے۔
خاص طور پرکیرل کے باشندوں اور ماحولیات کی مدد کے لیے بنائے گئے اس اختراعی تعاون کے لیے علم اور عمل دو اہم ترین اہداف تھے۔ جیہرمن کا کہنا ہے کہ ٹیم نے ساحلی سیلاب کے بارے میں بیداری پھیلانے اور رہائشیوں کو اپنے حقوق جاننے اور مدد کے لیے کارروائی کرنے سے متعلق بااختیار بنانے کے لیے مل جل کر کام کیا۔ ٹیم میں ہیوبرٹ ہمفری فیلو کے پی محمد بشیر، ’ای کیو یو آئی این او سی ٹی‘کے سی جی مدھوسودھنن، کے جی سریجا اور ایم پی شاجان بھی شامل تھے۔ انہوں نے مل کر خطرے سے دوچار طبقات کو بااختیار بنانے کے لیے بعض کارآمد اقدامات تیار کیے۔
فنون لطیفہ کے ذریعہ رسائی
ٹیم کی سب سے متاثر کُن کوششوں میں سے ایک ’’فرام دی برنک‘‘ نامی ایک تین منٹ کے دورانیہ کی دستاویزی فلم تھی جسے دبئی میں ۲۰۲۳ءمیں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (کوپ۲۸) میں دکھایا گیا تھا۔ اب یوٹیوب پر عوامی طور پر دستیاب اس دستاویزی فلم میں سیلاب سے ہونے والے نقصان کی واضح تصویر دکھائی گئی ہے ۔ ساتھ ہی اس میں متاثرہ دیہی عوام کی دل دہلا دینے والی اور متاثر کُن کہانیاں بھی بیان کی گئی ہیں۔ دستاویزی فلم موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے اور سیلاب دوست زراعت کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
اس پروجیکٹ کا دوسرا دلچسپ مظہر ’’چیویتورما‘‘ ہے، جو کیرل کے تھریسور میں اسکول آف ڈرامہ اینڈ فائن آرٹس کے ڈین شری جیت رامانن کی ہدایت کاری میں بنایا جانے والا ایک اسٹیج ڈرامہ ہے۔ رامانن نے اسکرپٹ کو سیلاب زدہ گاؤں پوتھنویلیکارا کےباشندوں کے ساتھ مل کر لکھا ہے۔ اس اسٹیج ڈرامے کی کہانی ماحولیاتی آفات سے نمٹنے کی ان (مقامی رہائشیوں) کی یادوں اور تجربات کو ساجھا کرتی ہے۔ بھارتی کہتی ہیں کہ ’’چیویتورما‘‘ کو متعدد بار پیش کیا گیا۔ اسے جب ٹی آئی ایس ایس میں ایک نمائش کے دوران پیش کیا گیا تو اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ بعد ازاں اس ڈرامے کو نئی دہلی میں ہونے والے نیشنل ڈرامہ فیسٹیول کے لیے منتخب کیا گیا۔ بھارتی نے دہلی میں اس ڈرامے کی پیشکش کو ’’فخر کا ذاتی لمحہ،میرے ذریعہ سوچا گیا ایک خیال، ان حدود کو عبور کرنے والا جن کا میں نے خواب دیکھا تھا‘‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
طبقاتی وکالت
اس طرح کی تخلیقی کوششوں کے علاوہ، ٹیم کے زیادہ تر کاموں میں مقامی لوگوں کو منظم کرنا، ان کے علم اور ہنر کو بڑھانا اور انہیں ترقی کی منازل طے کرنے اور محفوظ رہنے میں مدد کرنے کے لیے وسائل فراہم کرنا شامل ہے۔ مقامی خواتین کو علاقے میں مد وجزر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیلاب کے دوران تفصیلی ڈیٹا اکٹھا کرنے کی تربیت دی گئی تاکہ محققین سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا درست نقشہ حاصل کر سکیں۔ طبقے کی خواتین کو فلمسازوں نے مختصر ویڈیو بنانے کی تربیت دی تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ موسمیاتی تبدیلی سے ان کی زندگیاں کیسے متاثر ہوتی ہیں۔ مقامی باشندوں کو مقامی تاریخ کو محفوظ رکھنے اور بڑھتے ہوئے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں عوامی بیداری میں بہتری لانے کے لیے کمیونٹی تھیٹر مواد تیار کرنے کی تربیت دی گئی۔
انتظامی سطح پر جیہ رمن مقامی حکومتوں کی ضلعی منصوبہ بندی کے اجلاسوں میں ٹیم کے اپنے نتائج اور خیالات کی مؤثر پیشکش پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کوششوں کے نتیجے میں غیر محفوظ دیہات کو سیلاب سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کیا گیا اور قراردادیں منظور کی گئیں جن میں ’’مطالبہ کیا گیا کہ مدوجزر کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کو آفت قرار دیا جائےاور یہ کہ انہیں ریاستی آفات سے نمٹنے کے فنڈ کی فراہمی کا اہل بنایا جائے۔‘‘
جیہ رمن اس پروجیکٹ کو مجموعی طور پر ’’ایک بڑی کامیابی‘‘ قرار دیتے ہیں اور اس بات کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں کہ اس نے کس طرح کامیابی کے ساتھ مقامی، ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی توجہ مبذول کرائیاور انہیں ’’مدوجزر کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی مکمل طور پر نظرانداز شدہ آفت‘‘ سے آگاہ کیا۔
آگے کا راستہ
بھارتی کہتی ہیں ’’میں مقامی خواتین اور طبقے کے ساتھ ساتھ ان نتائج کے بارے میں پُرجوش ہوں۔ہم نے وائی کین (ویمن ان کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک) کے نام سے خواتین کا ایک نیٹ ورک بنایا ہے اور پروجیکٹ کی مداخلت سے تشکیل پانے والے ان کمیونٹی گروپوں کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی پر بات چیت اور مصروفیات جاری رکھیں گے۔‘‘
بھارتی کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ ختم ہونے کے بعد بھیکیرل میں سیلاب زدگان کی مدد کرنے کی کوششیں ختم نہیں ہوئیں اور ہندوستان میں نوجوانطبقہصنف پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی پر بحث میں شامل ہو کر مدد کر سکتا ہے۔
جیہ رمن کہتے ہیں کہ مسئلہ کے حل کے لیے تکنیکی پہل بھی ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’عالمی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے ہندوستان اور چین عالمی سطح پر سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ نوجوان ابتدائی انتباہی نظام، پیمائش اور نگرانی نظام اور مطابقت پذیر نظام کو تیار کرنے کے لیے اختراعی اور نئے خیالات کے ساتھ آئیں۔‘‘ان کا کہنا ہے کہ زندگی بچانے والی اختراعات کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
بشکریہ اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
بھارت ایکسپریس۔