صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو نے آج (یکم ستمبر 2024) نئی دہلی میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے زیر اہتمام ضلعی عدلیہ کی دو روزہ قومی کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے سپریم کورٹ کے پرچم اور نشان کی رونمائی بھی کی۔اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہا کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک ہندوستان کی سپریم کورٹ نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے عدالتی نظام کے ایک چوکس پرنسپل کے طور پر ایک انمول تعاون دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی وجہ سے ہندوستانی علم قانون بہت ہی قابل احترام مقام رکھتا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی عدلیہ سے وابستہ تمام موجودہ اور ماضی کے لوگوں کے تعاون کو سراہا۔ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سپریم کورٹ نے اپنے قیام کے 75 سال مکمل ہونے پر بہت سے ایسے پروگرام منعقد کیے ہیں جن سے لوگوں کا ہمارے عدالتی نظام پر اعتماد اور لگاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ انصاف کے تئیں یقین اور عقیدت کا جذبہ ہماری روایت کا حصہ رہا ہے۔ انہوں نے گزشتہ موقع پر اپنے خطاب کا حوالہ دیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ لوگ ملک کے ہر جج کو خدا سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک کے ہر جج اور عدالتی افسر کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ دھرم، سچائی اور انصاف کا احترام کرے۔ ضلعی سطح پر یہ اخلاقی ذمہ داری عدلیہ کا مَنارِ نور ہے۔ ضلعی سطح کی عدالتیں کروڑوں شہریوں کے ذہنوں میں عدلیہ کی تصویر کا تعین کرتی ہیں۔ لہٰذا ضلعی عدالتوں کے ذریعے عوام کو حساسیت اور بروقت اور کم قیمت پر انصاف کی فراہمی ہی ہماری عدلیہ کی کامیابی کی بنیاد ہے۔صدر جمہوریہ نے کہا کہ حالیہ برسوں میں ضلعی سطح پر عدلیہ کے بنیادی ڈھانچے، سہولیات، تربیت اور انسانی وسائل کی دستیابی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ لیکن، ان تمام شعبوں میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ وہ پراعتماد تھیں کہ اصلاحات کی تمام جہتوں پر تیز رفتار پیش رفت جاری رہے گی۔
صدر مملکت نے کہا کہ عدلیہ کے سامنے مقدمات کا التوا اور بیک لاگ ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے 32 سال سے زائد عرصے سے زیر التوا مقدمات کے سنگین مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خصوصی لوک عدالت ہفتہ جیسے پروگراموں کو زیادہ کثرت سے منعقد کیا جانا چاہئے۔ اس سے زیر التوا مقدمات سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس مسئلے کو ترجیح دیتے ہوئے اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس کانفرنس کے ایک سیشن میں کیس مینجمنٹ سے متعلق بہت سے پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ ان بات چیت کے عملی نتائج برآمد ہوں گے۔
صدر نے کہا کہ ہمارا آئین مقامی سطح پر پنچایتوں اور بلدیات کے ذریعے قانون ساز اور ایگزیکٹو اداروں کے اختیارات اور ذمہ داریاں فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ہم مقامی سطح پر ان کے برابر انصاف کے نظام کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی زبان اور مقامی حالات میں انصاف کی فراہمی کے انتظامات سے انصاف کو ہر کسی کی دہلیز تک پہنچانے کے آئیڈیل کو حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ ہماری عدلیہ کے سامنے بہت سی چنوتیاں ہیں جن کو حل کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مربوط کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ مثال کے طور پر عدلیہ، حکومت اور پولیس انتظامیہ کو ثبوتوں اور گواہوں سے متعلق مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
صدر نے کہا کہ جب عصمت دری جیسے گھناؤنے جرم میں عدالتی فیصلے ایک پیڑھی گزر جانے کے بعد آتے ہیں تو عام آدمی محسوس کرتا ہے کہ عدالتی عمل میں حساسیت کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری سماجی زندگی کا افسوسناک پہلو ہے کہ بعض صورتوں میں وسائل رکھنے والے لوگ جرائم کرنے کے بعد بھی بے خوف اور آزاد گھومتے رہتے ہیں۔ جو لوگ ان کے جرائم کا شکار ہوتے ہیں وہ خوف کے سائے میں رہتے ہیں جیسے ان غریبوں نے کوئی جرم کیا ہو۔
صدر نے کہا کہ دیہات کے غریب لوگ عدالت جانے سے ڈرتے ہیں۔ وہ بڑی مجبوری میں عدالت کے انصاف کے عمل میں حصہ دار بنتے ہیں۔ اکثر وہ خاموشی سے ناانصافی کو برداشت کرتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ انصاف کے لیے لڑنے سے ان کی زندگی مزید غمگین ہو سکتی ہے۔ ان کے لیے صرف ایک مرتبہ ہی گاؤں سے دور عدالت جانا شدید ذہنی اور مالی دباؤ کا باعث بن جاتا ہے۔ ایسے میں التوا کے کلچر کی وجہ سے غریبوں کو جو تکلیف ہوتی ہے بہت سے لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جانا چاہیے۔صدر مملکت نے کہا کہ جو خواتین جیل میں ہیں، ان کے بچوں سامنے پوری زندگی ہے۔ ہماری ترجیح ان کی صحت اور تعلیم کے لیے کیا جا رہا ہے اس کا جائزہ لینے اور اس میں بہتری لانے کی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ نابالغ مجرم بھی اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ ان کی سوچ اور دماغی صحت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنا، انھیں زندگی گزارنے کے لیے مفید ہنر فراہم کرنا اور انھیں مفت قانونی امداد فراہم کرنا بھی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔