الہ آباد ہائی کورٹ نے مسلم سماج کے حوالے سے ایک اہم تبصرہ کیا ہے، اس تبصرہ میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی مسلمان لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کا حق قبول نہیں کرسکتا۔ دراصل، ایک مسلمان مرد ایک ہندو عورت کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ میں رہ رہا ہے، لیکن اس کی شادی پہلے ہی ایک مسلم خاتون سے ہو چکی تھی۔ ایک پانچ سال کی بیٹی بھی تھی، اسی لیے اب عدالت نے اہم تبصرہ کیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اسلام میں یقین رکھنے والے شخص کو لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کا کوئی حق نہیں، اوریہ حق تب تو ہرگز نہیں دیا جا سکتا جب اس کی شادی پہلے ہی ہوچکی ہو۔ واضح رہے کہ چند ماہ قبل بھی جوڑے کی جانب سے سیکیورٹی کے حوالے سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ اس پٹیشن کے ذریعے ان کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: لیو ان ریلیشن شپ ہندوستانی تہذیب کے لئے ‘کلنک’، چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کا سخت تبصرہ
بڑی بات یہ ہے کہ درخواست گزار نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی مسلم بیوی کو اس لیو ان ریلیشن شپ پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ وہ خود بھی کچھ بیماریوں میں مبتلا ہے۔ بعد میں مزید معلومات ملی کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی۔ عدالت کو یہ بھی پتہ چلا کہ شوہر کا یہ دعویٰ کہ اس کی بیوی یوپی میں رہتی ہے ،جھوٹ ہے۔ اس کی بیوی دراصل ممبئی میں اپنے ساس سسر کے ساتھ رہ رہی تھی۔تاہم سماعت کے دوران ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اگر کوئی مسلمان جوڑا شادی شدہ نہیں ہے تو کیا وہ لیو ان ریلیشن شپ میں رہ سکتے ہیں؟ اس پر عدالت نے کہا کہ بہت سی چیزوں کو اخلاقیات کی بنیاد پر سمجھنا پڑتا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔