Bharat Express

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر کیوں ہیں تنازعہ کا شکار، جامعہ مڈل اسکول کے ٹیچرحارث الحق کو معطل کئے جانے کی کیا ہے وجہ؟

جامعہ ملیہ اسلامیہ کو میڈیکل کالج دلانے کا اعلان کرنے والی وائسل چانسلر نجمہ اختر کی مدت کار کے چند ماہ باقی بچے ہیں، لیکن جامعہ سے متصل زمین کی وجہ سے وہ سرخیوں میں ہیں اور ان پر متعدد طرح کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر تنازعہ میں ہیں۔ وہیں عدالت میں معاملہ کو لے جانے والے مڈل اسکول کے ٹیچر حارث الحق کو معطل کردیا گیا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلرنجمہ اختراپنی مدت مکمل کرنے کے قریب ہیں، لیکن وہ ان دنوں ایک ایسے تنازعہ کا شکارہوگئی ہیں، جوان کی تمام خوبیوں اورجامعہ ملیہ اسلامیہ کے تعلیمی معیارکورفتار دیئے جانے پربھی بھاری پڑتا ہوا نظرآرہا ہے۔ دراصل یہ پورا معاملہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے متصل ایک قیمتی زمین سے جڑا ہوا ہے، جب ایگزیکٹیوکونسل کی میٹنگ میں گزشتہ 4 اگست کو بے قیمت آراضی کا حق شفعہ ذکیہ ظہیرزوجہ سید کاظم ظہیرکو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، حالانکہ اس میٹنگ کے بعد سے ہی اس پورے معاملے پرشدید قسم کے شکوک وشبہات ظاہرکئے گئے اورکئی اراکین نے جامعہ کی موجودہ وائس چانسلرپرسوال اٹھاتے ہوئے محاذ کھول دیا۔ مجلس عاملہ کے تین ممبران جو صدرجمہوریہ کے نامزد کردہ ہیں، انہوں نے اسےغیرقانونی اورادارے کے لئے بڑے خسارے کا باعث قراردیا ہے۔ بہرحال یہ پورا معاملہ عدالت تک پہنچ گیا ہے اورعدالت نے جامعہ کو جواب داخل کرنے کے لئے 4 ہفتے کا وقت دیا ہے، ساتھ ہی اس معاملے پر23 نومبرتک روک لگا دی ہے۔ وہیں دوسری جانب، جامعہ الیومنائی ایسوسی ایشن اوراکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے بھی جامعہ انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کیا ہے اوروائس چانسلرکی مخالفت کی ہے۔

ٹیچرس ڈے کے موقع پرحارث الحق کو کردیا معطل

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی زمین کے معاملے کودہلی ہائی کورٹ میں لے جانے والے جامعہ مڈل اسکول کے فزیکل ایجوکیشن کے ٹیچرحارث الحق کو ٹیچرس ڈے کے موقع پرجامعہ ملیہ اسلامیہ نے انہیں تحفہ دیتے ہوئے معطل کردیا ہے، اسے جامعہ انتظامیہ کی جوابی کارروائی سے تعبیرکیا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیچرس ڈے (یوم اساتذہ) کے موقع پرہی جامعہ ملیہ کی جانب سے معطلی کا فرمان جاری کیا گیا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے ایک طرف جامعہ انتظامیہ کوبڑا جھٹکا دیا، وہیں حارث الحق کے لئے اسے بڑی کامیابی سے تعبیرکیا جا رہا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملے پر23 نومبرتک روک لگا دی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ پروفیسرنجمہ اخترکی مدت کار بھی 10 نومبر2023 تک مکمل ہو جائے گی۔ حالانکہ حارث الحق کی معطلی سے متعلق جامعہ کی جانب سے جاری کئے گئے خط میں بدعنوانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جامعہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جامعہ سے منظوری لئے بغیرترکیہ زلزلہ کے متاثرین کے لئے طلباء سے چندہ کئے جانے کے معاملے میں سی سی ایس کنڈکٹ رولس کی خلاف ورزی میں جانچ مکمل ہونے تک معطل کردیا گیا ہے۔ تاہم لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایک بدلے کی کارروائی کے تحت لیا گیا ہے، جوعدالت میں چیلنج کئے جانے پرمنسوخ ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں برخاست کئے گئے حارث الحق کا کہنا ہے کہ جب میں نے جامعہ انتظامیہ کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، تبھی مجھے یہ معلوم تھا کہ یہ میرے خلاف کوئی بھی قدم اٹھاسکتے ہیں، لیکن میں اس پورے معاملے میں پیچھے ہٹنے والا نہیں ہوں۔ میں نے پہلی کلاس سے جامعہ ملیہ میں تعلیم حاصل کی ہے اوراسپورٹس کے شعبے میں قومی سطح پرجامعہ کی نمائندگی کی ہے اوراب یہاں تدریسی فرائض انجام دے رہا تھا، لہٰذا میں جامعہ کی بھلائی کے لئے انتظامیہ کے غلط فیصلے کے خلاف عدالت میں لڑائی لڑتا رہوں گا۔ انہوں نے اپنی معطلی کوبھی عدالت میں چیلنج کئے جانے کی بات کہی ہے۔

قابل ذکرہے کہ 7 رکنی مجلس عاملہ (ایگزیکیٹیوکونسل) میں سے چیئرپرسن اوروائس چانسلرکےعلاوہ 4 ممبران نے ادارے کی زمین کا حق شفعہ ذکیہ ظہیرکو دینے پررضامندی کا اظہارکیا تھا۔ اس کے برعکس مجلس عاملہ کے تین ممبران جو صدرجمہوریہ کے نامزد کردہ ہیں، انہوں نے اسےغیرقانونی اورادارے کے لئے بہت بڑے خسارے کا باعث قراردیا تھا اورمجلس عاملہ کے اس فیصلے کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہاربھی کیا۔ یہ پورا معاملہ جب سرخیوں میں آیا تب اس پرجامعہ الیومانی ایسوسی ایشن اورکچھ دیگرذمہ داران بھی سامنے آنے لگے اورجامعہ انتظامیہ کے فیصلے کی مخالفت کی۔

یہ بھی پڑھیں:  Jamia Millia Islamia land Issue: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے قیمتی زمین؟ جامعہ برادری میں سخت بے چینی، وائس چانسلر نجمہ اور ایگزیکٹیو کونسل کے 4 اراکین پربڑا الزام

جامعہ الیومنائی چندہ کرکے جامعہ کو دینا چاہتی ہے یہ زمین

جامعہ الیومنائی کے سکریٹری بدرعالم کا کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اس زمین پرکسی بھی قسم کا کوئی تنازعہ یا کنفیوژن نہیں ہے۔ اس زمین پرجامعہ کا مالکانہ حق ہے۔ جامعہ نے 1952 میں ایک ایگریمنٹ دستخط کیا تھا، تب یہ زمین کے جی سیدین کودی گئی تھی۔ اس ایگریمنٹ میں یہ لکھا گیا تھا کہ وہ یہ زمین خود فروخت نہیں کرسکتے۔ یا تو جامعہ ملیہ کو یہ زمین دی جائے گی یا پھر جامعہ کے این اوسی سے ہی اس کو فروخت کیا جائے گا۔ کے جی سیدین کی چاربیٹیاں ہیں، جس میں سے ایک کی زمین 2002 میں جامعہ ملیہ خرید چکی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کے جی سیدین کی چاربیٹیاں تھیں، جن میں ایک بیٹی ذکیہ ظہیرہیں، جن کے پاس 855.5 اسکوائرفٹ زمین ہے۔ ذکیہ ظہیرنے جامعہ ملیہ کو مطلع کیا کہ وہ یہ زمین 17 کروڑ روپئے میں فروخت کرنا چاہتی ہیں، اس لئے یہ زمین جامعہ خرید لے یا پھران کو این اوسی دے دے۔ جامعہ کا کہنا ہے کہ جامعہ کے پاس پیسے کی کمی ہے، اس لئے وہ یہ زمین نہیں خرید سکتی۔ اب سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جامعہ سے متصل زمین جو جامعہ کے لئے ہرلحاظ سے مناسب ہے، وہ اس کو کیوں نہیں خریدنا چاہتی؟ جبکہ جامعہ ملیہ کو میڈیکل کالج کے لئے زمین کی سخت ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جامعہ ہاسٹل سے بھی متصل ہے، جہاں ہاسٹل بنایا جا سکتا ہے۔ یا پھر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے بالکل قریب ہے، وہ پرشعبے کی توسیع کی جاسکتی ہے۔ یہ تمام سوالات اٹھ رہے ہیں، جو فطری ہیں، تاہم جامعہ انتظامیہ کو اس پرازسرنوغورکرنا چاہئے۔ بدرعالم کا کہنا ہے کہ جامعہ کا کہنا ہے کہ اگرجامعہ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو الیومنائی ایسوسی ایشن اپنی جانب سے چندہ کرکے اوربھیک مانگ کرپیسہ جمع کرے گی اوریہ زمین خرید کرجامعہ کو بطورتحفہ دیا جائے گا۔

  بھارت ایکسپریس۔

Also Read