نوح اور منی پور میں ہو رہے تشدد پر جماعت اسلامی ہند نے کیا تشویش کا اظہار اور گیان واپی سروے پر دیا یہ بڑا بیان...
Jamat-E-Islami Hind: جماعت اسلامی ہند نے منی پور میں المناک نسلی تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینئر سلیم نے کہا کہ، “ریاست میں مختلف نسلی گروہوں کے درمیان تقریبا تین ماہ سے تشدد جاری ہے۔ اتنے عرصے تک کسی بھی تشدد کا جاری رہنا، انسانیت کے لئے باعث شرم ہے۔ یہ ریاستی اور مرکزی دونوں سطحوں پر حکمرانوں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے بروقت کارروائی کی جاتی تو تشدد کو روکا جاسکتا تھا جس سے کئی قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں اور عبادت گاہوں پر حملے کو روکا جاسکتا تھا۔ منی پور میں ہونے والے اس نسلی تشدد سے اشارہ ملتا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کو عدم تحفظ، امتیازی سلوک، پسماندگی اور انتظامیہ و سیاست میں نمائندگی کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اقلیتوں کو تشدد سے بچانے میں ناکامی، ان کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال،تعلیم و روزگار میں مواقع کی کمی اور تعصبات کے پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب کوششیں نہ کئے جانے کے لئے حکومت کو جواب دہ ہونا چاہئے۔ منی پور میں بے بس خواتین کو برہنہ پریڈ کرائے جانے کے غیر انسانی رویے نے پورے ملک کو شرمسار کیا ہےاور خواتین کے تحفظ اور ان کے وقار کو شدید چوٹ پہنچائی ہے۔ اس واقعہ سے فسادیوں کی اخلاقی پستی کا پتہ چلتا ہے کہ وہ جنہیں دشمن اور غیر ملکی سمجھتے ہیں، ان سے نفرت کرنے میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ یہ ذہنیت سوشل میڈیا اور مین اسٹریم الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔ اقلیتوں کے خلاف اس نفرت نے ہزاروں شہریوں کو اپنے ہی ملک میں پناہ گزیں بنا دیاہے۔
” انہوں نے مزید کہا کہ، ” جماعت اسلامی ہند، منی پور میں تشدد کے سلسلے میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی مداخلت کو سراہتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ مرکزی حکومت فوری طور پر منی پور میں حالات معمول پر لانے کے لئے مناسب اقدامات کرے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ وہاں انٹرنیٹ خدمات بحال کرے اور فسادیوں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف فوری سخت کارروائی کرے۔”
ہریانہ میں ہو رہے تشددحکومت کی ناکامی-جماعت اسلامی ہند
جماعت اسلامی ہند نے ہریانہ میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہاں عبادت گاہوں پر ہوئے حملوں کی سخت مذمت کی ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی ہند کے قومی سیکرٹری مولانا شفیع مدنی نے کہا کہ، جماعت اسلامی ہند حالات کو قابو میں لانے کے لئے فوری اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ،” ہریانہ کے اندر ’سوہنا‘اور’نوح‘ میں تشدد کے نتیجے میں دو ہوم گارڈز سمیت چھ افراد کی جانیں گئیں۔ اس تشدد کا آغاز ایک ہندو حامی تنظیم کی طرف سے نکالے گئے جلوس کی وجہ سے ہوا۔ کسی بھی مذہبی جلوس کا استعمال تشدد کو ہوا دینے کے لئے ہو، یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ فرقہ وارانہ اور پولرائزیشن کا ماحول پیدا کرنے کے لئے اس طرح کی کوششوں کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جماعت ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ، بشمول گروگرام کے سیکٹر 57 کی مسجد کے امام مولانا سعد جنہیں قتل کیا گیا اور مسجد کو آگ لگا دی گئی، کے لئے مناسب معاوضے کا مطالبہ کرتی ہے، ساتھ ہی معاملے کی فوری اعلیٰ سطحی انکوائری اور ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے جو پیشگی اطلاع کے باوجود شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔”
جماعت نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ تشدد انجام دینے والے اصل قصورواروں کو پکڑنے کے بجائے جانبداری برتتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جارہاہے۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے جماعت اسلامی ہند کے قومی سکریٹری مولانا شفیع مدنی کی قیادت میں ایک وفد نے گروگرام اور ہریانہ کا دورہ کیا۔ وفد نے گروگرام پولیس کمشنر ’کلا رام چندرن‘ سے ملاقات کی۔ بات چیت کے دوران پولیس نے تشدد میں اضافے کی وجہ سوشل میڈیا پروپیگنڈہ کو قرار دیا اور کہا کہ حالات کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے میں کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ بعد ازاں وفد نے وہاں کے رہائیشیوں سے ملاقات کی اور اسپتال کا دورہ کرکے زخمیوں کی عیادت کی اور ان کے اہل خانہ سے بھی ملے۔ وفد نے گروگرام کے سیکٹر 57 میں واقع مسجد کا بھی دورہ کیا جسے سخت سیکورٹی کے گھیرے میں رکھا گیا ہے۔ وفد کا تجزیہ ہے کہ گروگرام کی ابتر صورت حال انٹلی جینس اور محکمہ پولیس کے درمیان تال میل میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ہریانہ میں خوف کا ماحول ہے، سماج دشمن عناصر جو تشدد میں ملوث رہے ہیں، انہیں یقین ہے کہ ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی،کیونکہ انہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ جماعت نے، تمام برادریوں کے مابین بات چیت کے آغاز کے لئے سنجیدہ کوششوں اور تشدد کو ہوا دینے والے سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ نیز تشدد کے متاثرین کے لئے مناسب معاوضہ اور قصورواروں کو سزا دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
جے پور- ممبئی ٹرین میں ہوئے حادثہ کی جماعت اسلامی ہند نے کی سخت مزمت
جماعت اسلامی ہند نے ’انڈین ریلوے پروٹیکشن فورس‘ (آر پی ایف) کانسٹیبل کے ذریعہ چلتی ٹرین میں مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تین شہریوں اور آر پی ایف کے ایک آفیسر کو ٹارگٹ کرکے گولی مارنے کی شدید مذمت کی ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر منتظم خان نے کہا کہ، اس کانسٹیبل نے اپنے سینئر اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو بھی مار ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ، قتل کے گھناؤنے انداز سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک ایسا نفرت انگیز جرم تھا جس میں ملزم نے مسلمانوں سے مشابہت رکھنے والے مسافروں کو نشانہ بنایا اور انہیں گولی مار دی۔اس پر منتظم خان نے کہا کہ، یہ واقعہ مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو ملک میں معمول بنتا جارہاہے۔ برسراقتدار طاقتوں کی طرف سے بنیاد پرستی اور پولرائزیشن کو ہوا دینے کے نتیجے میں یہ افسوسناک صورت حال پیدا ہوئی ہے۔
انجینئر سلیم نے مزید کہا کہ، ایسا لگتا ہے کہ ذہنی و نفسیاتی طور پر بیمار افراد کو بالخصوص مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا، ایک طریقہ کار بن گیا ہے۔خبروں میں بتایا گیا ہے کہ قاتل نفسیاتی طور پر بیمار تھا۔ اگر ملزم ذہنی طور پر بیمار تھا تو حکام نے ایسے شخص کو بندوق سے لیس کرکے شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری کیسے سونپی؟ ملزم قتل کے بعد وزیر اعظم اور یو پی کے وزیر اعلیٰ کی تعریف کررہا تھا، یہ انتہائی حیران کن بات ہے۔ ملک میں غیر ذمہ دار میڈیا، متعصبانہ کردار پر مبنی فلموں اور اشتعال انگیز لٹریچروں کی وجہ سے بھی نفرت، بغض، تقسیم، اور پولرائزیشن کا ماحول پیدا ہواہے۔انہوں نے کہا کہ، مین اسٹریم میڈیا کی طرف سے مسلسل نفرت پھیلانے کا رویہ اس مسئلے کی جڑ ہے۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف مناسب کارروائی ہونی چاہئے۔ جماعت متاثرین کے اہل خانہ کے لئے معاوضہ اور ان کے لواحقین کے لئے روزگار کا مطالبہ کرتی ہے اور واقعے کی آزادانہ اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات اور قصورواروں کو سزا دینے کا بھی مطالبہ کرتی ہے۔
خواتین اور لاپتہ لڑکیوں پر جماعت نے کیا اظہار افسوس
جماعت اسلامی ہندنے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی مرتب کردہ اس رپورٹ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں سال 2019 سے 2021 تک ملک بھر میں 13.13 لاکھ سے زیادہ لڑکیوں اور خواتین کے لاپتہ ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کے مطابق مذکورہ عرصے میں 18 سال سے زیادہ عمر کی 10,61,648 خواتین اور 18 سے کم عمر کی 2,51,430 لڑکیاں لاپتہ ہوئی ہیں۔ لاپتہ خواتین کی سب سے زیادہ تعداد مدھیہ پردیش کی ہے، جہاں تقریبا دو لاکھ لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ہے ۔ اس کے بعد مغربی بنگال کا نمبر آتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش میں 1,60,180 خواتین اور 38,234 لڑکیاں لاپتہ ہوئی ہیں جبکہ مغربی بنگال میں اس عرصے میں 1,56,905 خواتین اور 36,606 لڑکیاں لاپتہ ہوئیں۔ دیگر ریاستوں میں بھی لاپتہ لڑکیوں اور خواتین کی تعداد تشویشناک ہے۔ مہاراشٹر میں مذکورہ مدت کے دوران 1,78,400 خواتین اور 13.033 لڑکیاں لا پتہ ہوئیں۔ اسی طرح اڑیسہ میں 70,222 خواتین اور 16,649 لڑکیاں لاپتہ ہوئی ہیں۔ چھتیس گڑھ میں 49,116 خواتین اور 10,817 لڑکیاں اس عرصے میں لاپتہ ہوئیں۔ قابل ذکر ہے کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے دہلی میں لاپتہ لڑکیوں اور خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق قومی دارالحکومت میں 2019 تا 2021 لاپتہ خواتین کی تعداد 61,054 اور لڑکیوں کی تعداد 22,919 بتائی گئی ہے۔ جموں و کشمیر میں اس عرصے کے دوران 8617 خواتین اور 1148 لڑکیاں لاپتہ ہوئیں۔ جماعت اسلامی ہند کی سیکرٹی رحمت النساء نے کہا کہ، ” اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ”بیٹی بچاؤ“ کے نعرے یا حکومت کے مختلف اقدامات جیسے فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ 2018 جس میں 12 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی عصمت دری کے لئے سزائے موت اور سخت سزاؤں کا ذکر ہے، یہ سب انتخابی نعرے ہیں جو مطلوبہ نتائج سے بہت دور ہیں۔ اسی طرح ہنگامی حالات میں ایک ہی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نمبر (112)، ایمرجنسی رسپانس، سپورٹ سسٹم، سیف سیٹی پروجیکٹس، سائبر کرائم رپورٹنگ پورٹل اور جنسی مجرموں کے بارے میں قومی ڈیٹا بیس جیسے اقدامات کا آغاز کیا گیا تاکہ جنسی مجرموں کا سراغ لگانے اور ان کی تفتیش میں آسانی ہو، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بہت محدود کامیابیاں دکھائی دیتی ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ، جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام کا بہترین طریقہ اخلاقیات اور اخلاقیات پر مبنی معاشرہ کی تشکیل ہے۔ صرف وہی معاشرہ جو عورت کی عزت و احترام کرتا ہو، شائستگی کو فروغ دیتا ہو، بے حیائی کی حوصلہ شکنی کرتا ہو، خواتین کے استحصال کو معیوب سمجھتا ہو،ایسا معاشرہ ہی خواتین کے تئیں مخلص ہوگا اور وہی انہیں بازاری قوتوں کا آلہ کار بننے سے روک سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ، جماعت، ہندوستان کے لوگوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے راستے پر چلنے سے گریز کریں۔ اس تہذیب نے آزادی کے نام پر خواتین کو ان کے حقیقی وقار سے محروم کردیا ہے۔ خواتین کو ان کے جائز حقوق ملنے چاہئیں اور انہیں باختیار ہونا چاہئے لیکن اس قیمت پر نہیں کہ خاندان میں ان کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کیا جائے۔
میڈیا دباؤ میں ہے (سی ایس ڈی ایس اور لوک نیتی رپورٹ):جماعت اسلامی ہند
’جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینئر سلیم نے کہا کہ، “لوک نیتی – سی ایس ڈی ایس‘ کی حالیہ میڈیا سروے کی رپورٹ پر جماعت اسلامی ہند کو تشویش ہے۔اس سروے میں 82 فیصد صحافیوں نے کہا کہ ان کے آجر، حکمراں جماعت کی حمایت کرتے ہیں۔ صحافیوں کو ذہنی و جسمانی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے 75 فیصد کو اپنی ملازمتیں ختم ہونے کا خوف لاحق رہتا ہے۔ 70 فیصد صحافی ذہنی دباؤ کے شکار ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیاسی نظام، میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کررہا ہے۔اسے اپنی ایماندارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اس کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ سوال پوچھے گئے صحافیوں میں 16 فیصد نے کہا کہ ان کے ساتھیوں کو سیاسی جھکاؤ کی وجہ سے اپنی ملازمتیں چھوڑنی پڑیں جبکہ آدھے سے زیادہ صحافیوں نے اپنے سیاسی خیالات کی بنیاد پر ممکنہ ملازمتوں میں کمی کے خدشات کا اظہار کیا۔ ڈیجیٹل میڈیا میں 69 صحافیوں کے بقول اپوزیشن پارٹیوں کی کوریج کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ 26 فیصد نے اتفاق کیا کہ نیوز میڈیا غیر منصفانہ طور پر مسلم کمیونٹی کو نشانہ بناتا ہے۔ تقریبا ایک چوتھائی صحافیوں نے سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے پر تشویش کا اظہار کیا۔ سروے میں آن لائن ہراساں کرنے اور ٹرولنگ کی باتیں بھی سامنے آئیں۔ جواب دہندگان میں سے 64 فیصد نے کم از کم ایک بار ہراساں کئے جانے کی بات کہی۔ان میں سے ڈیجیٹل صحافیوں کو 78 فیصد، ٹی وی صحافیوں کو55 فیصد اور پرنٹ صحافیوں کو54 فیصد تک بدسلوکی کا سامنا کرنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ مزید برآں، نصف سے زیادہ خواتین جواب دہندگان نے بتایا کہ وہ ٹویٹر اور فیس بک پر اپنی پرائیویسی کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں اور وہائٹ ایپ استعمال کرتے ہوئے مردوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ اس رپورٹ سے ہندوستان میں میڈیا کی صورت حال اور ’عالمی پریس فریڈم انڈیکس‘ میں خراب پوزیشن کی نشاندہی ہوتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ، مثال کے طور پر جواب دینے والوں میں سے 72 فیصد نے کہا کہ نیوز چینلز اس وقت اپنے کام کرنے کے لئے مکمل آزاد نہیں ہیں۔ اسی طرح آزاد صحافیوں میں سے 71 فیصد نے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج اخبارات اپنا کام صحیح طریقے سے کرنے کے لئے کم آزاد ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صحافت سے منسلک افراد میں عدم اطمینان ہے۔ لہٰذا میڈیا اداروں کو اپنے ملازمین کے عدم اطمینان کے خاتمے اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے ترجیحی بنیاد پر اقدامات کرنے چاہئیں۔”
-بھارت ایکسپریس