کھیل کے وزیر منسکھ منڈاویہ۔ (فائل فوٹو)
تحریر: ڈاکٹر منسکھ مانڈوِیا، مرکزی وزیر حکومت ہند
”This article/write-up has been edited and sent by the Press Information Bureau(PIB), Government of India and reprinted on its request.“
یہ مضمون پریس انفارمیشن بیورو(پی آئی بی)، حکومتِ ہند کے ذریعہ ایڈیٹیڈ/ترمیم شدہ اورارسال کردہ ہے، جوان کی گزارش پرشائع کی گئی ہے۔
ملک کی 1.4 بلین کے بقدر آبادی کے لیے خوراک کی بہم رسانی کےمقصد سے اناج کی پیداوار بڑھانے کے لیے کیمیاوی کھاد ایک اہم ضروری عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ گذشتہ 9 برسوںمیں ہماری کوششوں کے نتیجے میں نائیٹروجن (این) وسیلہ فراہم کرنے کے لیے ایک اہم کیمیاوی کھاد یعنی یوریا کی پیدواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جو پیداوار 2013-14 کی 207.54 ایل ایم ٹی سالانہ سے بڑھ کر283.74 ایل ایم ٹی سالانہ کے بقدر تک پہنچ گئی ہے جو قابل ذکر اضافہ ہے۔ اسی طریقے سے کیمیاوی کھاد کی صنعت (سرکاری امدادِ باہمی اورنجی شرکائے کارسمیت) بھی اپنے طورپرسرگرمی کے ساتھ دیگراہم زرخیزی بڑھانے والے عناصرمثلاً فاسفیٹ (پی) پوٹاش (کے) پرمبنی کیمیاوی کھادوں کوبھی سرگرمی سے فروغ دیتی رہی ہیں۔ این پی کے کیمیاوی کھادوں کا متوازن استعمال ہمہ گیرزراعت کے لئے لازمی حیثیت رکھتا ہے تاہم فصلوں کی پیداواریت بڑھانے اورپیہم بنیاد پرفزوں ترہوتی آبادی کی خوردنی ضروریات کی تکمیل کے لیے مٹی کی زرخیزی کا اہم پہلو، مٹی اورآبی تحفظ کے ساتھ اندھادھن اورغیرمتوازن کیمیاوی کھادوں کا استعمال کرکے خسارے کی صورت پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں مٹی زرخیزعناصرسے عاری ہو رہی ہے اوراسے پانی کی طلب ہے، جس کے نتائج اس کی زرخیزی کی حیثیت میں رونما ہونے والے انحطاط کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں افزوں کیمیاوی کھاد استعمال اثرانگیزی (ایف یوای) کوفروغ دینے کے لئے ایک اختراعی تکنالوجی کی ضرورت نمایاں ہوئی تاکہ مٹی اور ماحول کا تحفظ کیا جا سکے۔ نئے عہد کی نینو ٹکنالوجی اس مسئلے کا حل بن کر سامنے آئی ہے اوراس کے تحت کم سے کم کیمیاوی کھاد کا استعمال کرکے یعنی استعمال ہونے والی کیمیاوی کھاد کی اثر انگیزی بڑھا کر زیادہ پیداوار حاصل کی جائے گی اور اس کے نتیجے میں ماحولیات پر بھی بہت کم برعکس اثرات مرتب ہوں گے۔
وزیراعظم کی جانب سے میک ان انڈیا کے سلسلے میں دیے گئے نعرے سے واضح ترغیب حاصل کرتے ہوئے بھارتی سائنس دانوں اور انڈین حضرات نے نینو یوریا (رقیق) وضع کیا ہے۔ یہ اندرونِ ملک تیار کی جانے والی اولین نینو کیمیاوی کھاد ہے۔ نینو یوریا کی مشتہری کیمیاوی کھادوں سے متعلق کنٹرول آرڈر (ایف سی او) 2021 کے تحت عمل میں آئی ہے اور یہ مشتہری سخت فیلڈ تجربات اور پوری سختی کے ساتھ حیاتیاتی اثرانگیزی اورحیاتیاتی سلامتی آزمائش کے تمام تر اصول و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بایو تکنالوجی کےمحکمے کے نینو زرعی سازو سامان سے متعلق رہنما خطوط کے تحت عمل میں آئی ہے۔ یہ آتم نربھر کرشی اور آتم نربھر بھارت کے تحت اپنائی گئی پہل قدمی کی ایک مکمل مثال ہے جو امرت کال کے دوران خوراک اور تغذیہ جاتی سلامتی کے سلسلے میں ملک میں مستقل طور پر اپنائی گئی ہے۔ اب تک نینو یوریا پلانٹ گجرات میں کلول میں اترپردیش میں پھول پور ارو آنولہ میں قائم ہو چکے ہیں جن کی صلاحیت 17 کروڑ بوتلوں کے بقدر ہے۔ 2025 تک نانگل، ٹرامبے، بنگلورو، دیوگڑھ، گواہاٹی اور دیگر متعدد مقامات پر دیگر نینو پلانٹ تیار ہو جائیں گے جو نینو یوریا کی پیداوار میں 44 کروڑ ووٹر سالانہ سے زائد کا اضافہ کریں گے جو 195 ایل ایم ٹی روایتی یوریا کے مساوی ہوگا۔
نینو یوریا کی لاگت ایک بوری یوریا کے بیگ کے مقابلے میں 16 فیصد کم ہے اوراسے کاشتکاروں کے ذریعہ اپنے کھیتوں تک آسانی سے لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے نوجوان کاشتکاروں کی اکثریت نے تسلیم کیا ہے جس کے نتیجے میں نینو یوریا بوتلوں کی فروخت میں اضافہ رونما ہوا ہے۔ نینو یوریا لاجسٹکس اور ذخیرہ لاگت کے لحاظ سے بھی فائدے کی حامل چیز ہے۔ روایتی کیمیاوی کھادوں کا ریک (بی سی این ایچ ایل) 69600 روایتی یوریا کی بوریاں لے جاتا ہے جبکہ یہ اس کے مقابلے میں 29 لاکھ بوتلوں کے بقدر نینو یوریا کی بوتلیں لے جا سکتاہے۔ اسی طریقے سے ایک 24 ایم ٹی ٹرک جو 533 یوریا کی بوریاں لے جا سکتاہے وہ 30000 نینو یوریا کی بوتلیں بھی لے جا سکتا ہے۔ نینو یوریا پلانٹ کو روایتی یوریا پلانٹ پر یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ اس پر اہم اخراجات کم آتے ہیں، توانائی صرفہ کم ہوتا ہے اور اس سے نسبتاً کم کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج ہوتا ہے۔نینو یوریا – این یو (رقیق) اعلیٰ زرخیزی استعمال اثر انگیزی (این یو ای) کا مظاہرہ کرتا ہے اور اسے اپنانے سے زرعی پیداواریت میں اضافہ ہوتاہے، پیداوار کی عمدگی بھی بڑھتی ہے ، کاشتکاروں کو ہونے والا منافع بڑھتا ہے اور مٹی، پانی، ہوائی آلودگی بھی کم ہوتی ہے۔ لاجسٹکس اور گودام کی لاگت بھی نسبتاً کم آتی ہے۔ 2021 کی خریف کی فصل میں آئی سی اے آر نے جو فیلڈ تجربات کیے یعنی 20 مقامات پر نینو یوریا کا استعمال چاول، مکئی، چھوٹے قسم کے باجروں، عمدہ قسم کے باجروں،ادرک کی کاشت کے لیے یا اس سے 3-8 فیصد کےبقدر پیداوار اضافہ حاصل ہوا اور کاشتکاروں کے لیے 25-50 فیصد تک کی کفایت ممکن ہو سکی۔
گذشتہ 3 سیزنوں کے دوران نینو یوریا رقیق کی 6.5 کروڑ بوتلیں (ہر ایک بوتل 500 ملی لیٹر کی) 192 لاکھ کاشتکاروں نے روایتی یوریا کے متبادل کے طور پر استعمال کیں اور 150 لاکھ ہیکٹیئر سے زائد رقبے پر اس کے ذریعہ احاطہ کیا گیا۔ کاشتکاروں کے کھیتوں کی سطح کے نتائج بھی خاصے حوصلہ افزا رہے ہیں، یعنی نینو یوریا کا استعمال مفید ثابت ہوا ہے۔ 2021-22 کے مقابلے میں 2022-23 میں نینو یوریا کی فروخت میں 55 فیصد کےبقدر کا اضافہ رونما ہوا جبکہ روایتی یوریا نے 4 فیصد کی معمولی سی نمو درج کی۔ 2022-23 میں، روایتی یوریا کی کھپت میں پنجاب، کیرلا، تمل ناڈو، جموں و کشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، جھارکھنڈ اور آسام میں تخفیف دیکھی گئی جبکہ ان ہی جگہوں پر ان ریاستوں میں نینو یوریا کے استعمال میں اضافہ ملاحظہ کیا گیا۔ مثال کے طور پر پنجاب میں نینو یوریا کے استعمال میں 27 فیصد، کیرلا میں 20 فیصد، اتراکھنڈ میں 67 فیصد، جموں و کشمیر میں 49.6 فیصد، کا اضافہ 2021-22 کے مقابلے میں 2022-23 میں ملاحظہ کیا گیا۔ اسی طریقے سے ، خریف 2023 کی فصل میں نینویوریا کی فروخت 2022 کی گذشتہ خریف کی فصل کے مقابلے میں اضافے سے ہمکنار ہوئی جبکہ ہماچل پردیش، جموں و کشمیر کی ریاستوں میں این سی یو کی فروخت میں تخفیف رونما ہوئی۔ مجموعی طور پر روایتی یوریا کی کھپت میں 189 اضلاع میں 2021-22 کے مقابلے میں 2022-23 میں تخفیف ملاحظہ کی گئی۔ ان میں سے 130 اضلاع جن کا تعلق 16 ریاستوں سے ہے نے روایتی یوریا کی کھپت میں 12 فیصد کی تخفیف درج رجسٹر کی۔ ساتھ ہی ساتھ نینو یوریا کی کھپت میں 76 فیصد کے بقدر کا اضافہ رونما ہوا۔ 2023 کی خریف کی فصل کے دوران روایتی یوریا کی فروخت میں نینو یوریا کے استعمال کی وجہ سے 2022 کی خریف کی فصل کے مقابلے میں 113 اضلاع میں تخفیف ملاحظہ کی گئی۔
نینو ڈی اے پی، جسے حال ہی میں نینوکیمیاوی کھاد میں شامل کیا گیا ہے، فصلوں کی زرخیزی بڑھانے کے سلسلے میں ایک دیگر عنصر ہے جو روایتی ڈی اے پی کی کھپت میں مزید تخفیف کا باعث ثابت ہو سکتا ہے جوحتمی طورپردرآمدات میں تخفیف کا باعث ثابت ہوگا۔ نینو این پی کے، نینو زنک، نینو کاپر، نینو بورون، نینو سلفر وغیرہ وضع کرنے کے سلسلے میں کیمیاوی کھادوں کے شعبوں میں مزید تحقیق جاری ہے اوریہ تحقیق مستقبل میں یقینی طور پر ماحول دوست ہمہ گیرزراعت کو فروغ دے دی۔ نینو کیمیاوی کھادوں کے استعمال سے مادر ارض کی بحالی، بیداری، تغذیہ فراہمی اوربہتری کے سلسلے میں وزیراعظم کے پروگرام (پی ایم پرنام)کے مقصد کوتقویت بہم پہنچانے میں بھی مدد ملے گی اس کا مقصد متبادل کیمیاوی کھادوں کے استعمال کو فروغ دینا اورکیمیاوی کھادوں کا متوازن استعمال ممکن بنانا ہے۔ گرین ہاؤس گیس اخراج میں رونما ہونے والی تخفیف فائدے کی شکل میں سامنے آئے گی، عوام کی سبسڈی میں کفایت ہوگی، نقل وحمل اور دیگر خوردہ لاگتیں کئی گنا کم ہوں گی، جس کے نتیجے میں حتمی طور پر تعمیر قوم میں تعاون حاصل ہوگا۔
مزید برآں، بڑے پیمانے پر بیداری مہمات اور کاشتکاروں سے رابطہ کاری کے پروگرام شروع کیے گئے ہیں، جو موجودہ ادارہ جاتی ڈھانچوں مثلاً بھارتی زرعی تحقیقی کونسل (آئی سی اے آر)- کرشی وگیان کیندروں (کے وی کے ایس)، زرعی تکنالوجی انتظام ایجنسی (اے ٹی ایم اے)، قومی دیہی روزی روٹی مشن کے تحت ازخود اپنی مدد آپ کرنے والے گروپوں، کاشتکاروں کے فیلڈ اسکولوں (ایف ایف ایس) وغیرہ کے توسط سے اس کے فوائد کو منظر عام پر لا رہے ہیں۔ بیداری میں اضافے کے ساتھ اچھے طریقے سے وضع کیے گئے ڈرون کے ذریعہ چھڑکاؤ پر مبنی ایکو نظام کے ذریعہ مخصوص فصلوں میں کیا استعمال کیا جائے، اس کا لحاظ رکھتے ہوئے نینو کیمیاوی کھاد سے توقع کی جاتی ہے کہ آئندہ وقتوں میں یہ فزوں تر ہوگا اور کیمیاوی کھادوں کی بڑی مقدار میں رونما ہونے والی کھپت میں تخفیف لائے گا اور اس پہلو کو معقول بنائے گا۔
بڑے پیمانے پرنینو یوریا اوردیگرنینو کیمیاوی کھادوں کو اپنانے کےنتیجے میں اقوام متحدہ– ہمہ گیرترقیات اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے سلسلے میں کاشتکاروں کی منفعت کا راستہ ہموارہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اندرونِ ملک وضع کی گئی نینوکیمیاوی کھادوں کے مجموعی اثرات کی تفہیم عام کی جائے اور تمام تر شراکت داریکجا ہوکراس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کریں۔ کاشتکاروں کے ذریعہ فصلوں کی پیداوارسے متعلق حکمت عملیوں میں نینو کیمیاوی کھادوں کی شمولیت سے ماحول دوست سبززراعت کے فوائد کو بروئے کار لانے میں مدد ملے گی ، ساتھ ہی ساتھ صحت اور چاق و چوبند بھارت کے لیے خوراک اورتغذیہ جاتی سلامتی بھی حاصل ہوگی۔
-بھارت ایکسپریس