India may ban 80% rice exports: بھارت چاول کی متعدد اقسام کی برآمد پر ممکنہ پابندی پر غور کر رہا ہے۔ یہ مجوزہ اقدام، اگر نافذ ہوتا ہے، تو اس اہم خوراک کی پہلے سے بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کو مزید بڑھا سکتا ہے، خاص طور پر جب ْال نینوٗ موسمی رجحان دوبارہ ابھررہا ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان دنیا میں چاول کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ سرکاری اہلکار اس وقت غیر باسمتی چاول کی برآمد کو محدود کرنے کے منصوبے کے بارے میں بات چیت میں مصروف ہیں، جیسا کہ بلومبرگ کو اس معاملے کے بارے میں جاننے والے افراد نے انکشاف کیا ہے۔ حالانکہ بھارت ایکسپریس آزادانہ طور پر رپورٹ کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ معلومات کی رازداری کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرنے والے ان اندرونی ذرائع کے مطابق، اس تجویز کے پیچھے کا مقصد آئندہ انتخابات سے قبل مہنگائی میں اضافے کے خطرے کو کم کرنا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کے چاول کی برآمدات پر پابندی کے فیصلے کا بڑا اثر پڑے گا، جس سے بھارت کی چاول کی تقریباً 80فیصدبرآمدات متاثر ہوں گی۔ اگرچہ یہ اقدام ممکنہ طور پر گھریلو قیمتوں کو کم کر سکتا ہے، لیکن اس سے عالمی قیمتوں میں مزید اضافے کا خطرہ ہے۔ چاول دنیا کی تقریباً نصف آبادی کے لیے ایک اہم غذا ہے، البتہ دنیا کے چاول کی کھپت کا تقریباً 90 فیصد حصہ صرف ایشیا کا ہے۔ایل نینو موسمی رجحان کی واپسی پر تشویش نے پہلے ہی بینچ مارک کی قیمتوں کو دو سال کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے، جس سے فصلوں کے ممکنہ نقصان کے خدشات بڑھ گئے ہیں اور عالمی چاول کی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کی رفتار بڑھ گئی ہے۔
ہندوستان، چاول کی عالمی تجارت میں سب سے بڑاکھلاڑی ہے جو تقریباً 40 فیصد کا بڑاحصہ رکھتا ہے۔ حالیہ دنوں میں، ملک نے چاول کی بعض اقسام کی تجارت پر کنٹرول کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان نے 2022 میں ٹوٹے ہوئے چاول کی برآمد پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کے علاوہ، سفید اور بھورے چاول کی ترسیل پر 20 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی تھی، جو کہ یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے جواب میں، گندم اور مکئی جیسی اشیاء کو متاثر کرتی ہے۔ مزید برآں، بھارت نے گندم اور چینی کی برآمدات پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، جو ان ضروری اشیائے خوردونوش کی تجارت کو منظم کرنے کے لیے ٹھوس کوششوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ حالانکہ اس پورے معاملے پر خوراک، تجارت اور مالیات کی وزارتوں کے نمائندوں نے ای میلز یا ٹیکسٹ میسجز کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
خیال رہے کہ انڈونیشیا، چین اور فلپائن جیسے درآمد کنندگان اس سال جارحانہ طور پر چاول کا ذخیرہ کر رہے ہیں۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق سات سالوں میں پہلی بار ٹراپکل پیسفک میں “ال نینو” حالات پیدا ہوئے ہیں، جس سے چاول اگانے والے بہت سے علاقوں میں خشک سالی کا خطرہ ہے۔ بھارت کی طرف سے ممکنہ پابندی سپلائی پر تشویش میں اضافہ کرے گی۔
بھارت ایکسپریس۔