جمعیۃ علما ہند کے وفد نے ہلدوانی تشدد متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔
نئی دہلی: صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی کی خصوصی ہدایت پر11 فروری کو جمعیۃعلماء ہند کا ایک پانچ رکنی وفد نے ہلدوانی فساد زدہ علاقہ کا دورہ کیا۔ واضح رہے کہ 8 فروری کوہلدوانی کے محلہ ملک کے باغچہ میں موجود مسجد اورمدرسہ کونگرنگم اورانتظامیہ کے ذریعہ طاقت کے زورپرمنہدم کردینے کی صورت میں وہاں فساد پھوٹ پڑا تھا، جس کے نتیجہ میں 6 بے گناہ مسلم نوجوان محمد زاہد ولد نور محمد، محمد انس ولد محمد زاہد، محمد فہیم ولد محمد ناصر، محمد شعبان ولدلئیق احمد ہلاک ہوگئے تھے۔ کرفیواورانتظامیہ کی سختی کی وجہ سے فسادزہ علاقے میں جانا ممکن نہیں ہوپا رہا تھا، تمام کوششوں کے باوجود11 فروری کو جمعیۃعلماء ہند کا ایک وفد فسادزہ علاقہ میں پہنچا اورمقامی جمعیۃ کے ذمہ داروں سے ملاقات کرکے تفصیلی معلومات حاصل کیں۔
مسجد اورمدرسے کو مسمارکئے جانے سے ہوا تشدد
ہلدوانی جمعیۃعلماء کے صدرمولانا محمد مقیم نے وفد کو معاملہ کی تفصیلی جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ 29 جنوری کونگرنگم کی طرف سے ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں کافی تشویش پائی جارہی تھی اوربے چینی کاماحول تھا۔ مقامی جمعیۃعلماء کی ذمہ داران کو ساتھ لے کرمقامی انتظامیہ سے بات چیت ہوئی تھی۔ میٹنگ میں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ14 فروری کوکورٹ کا فیصلہ آنے تک مسجد اورمدرسہ کوسیل ہی رکھا جائے گا اورکسی طرح کی کارروائی نہیں کی جائے گی، لیکن پھراچانک 8 فروری کومقامی لوگوں کو اعتماد میں لئے بغیر بھاری پولس فورس کے ساتھ سیل شدہ مسجد اورمدرسہ کو مسمارکردیا گیا، جس کے نتیجہ میں عوامی احتجاج شروع ہوگیا اورپھرمعاملہ بے قابوہوتے دیکھ کرانتظامیہ نے بے دریغ طاقت کا استعمال شروع کردیا اورپولس فورس نے بغیرکسی وارننگ کے گولی چلادی جس کے نتیجہ میں 6 بے قصورمسلم نوجوان ہلاک ہوگئے اورکافی لوگ زخمی ہوگئے اور کشیدگی پیدا ہوگئی۔ وفدکو لوگوں نے بتایا کہ اگر پولس فورس سوجھ بوجھ سے کام لیتی اورمقامی لوگوں کو اعتمادمیں لے کرکارروائی کرتی تواس طرح کے حالات کو پیداہونے سے روکا جا سکتا تھا، لیکن انتظامہ نے جو بھی کارروائی کی ہے بڑی ہی عجلت میں انجام دی اورفساد کی تمام ترذمہ داری مقامی لوگوں پرڈالتے ہوئے ان کی گرفتاریاں بھی شروع کردی گئیں۔
مسلم طبقے کی گرفتاری سے صورتحال کشیدہ
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک 100 سے زیادہ بے قصورلوگ گرفتارہوچکے ہیں اوربیجا گرفتاریوں سے دہشت زدہ ہزاروں لوگ نقل مکانی بھی کرچکے ہیں یہ صورتحال یقینا تشویشناک ہے۔ وفد کومقامی لوگوں نے بتایا کہ 10 فروری کوانتظامہ کی طرف سے اچانک گھروں میں جبراً گھس کرنوجوانوں کواٹھالیا گیا جس کی وجہ سے ایک بارپھر سے ماحول میں کشیدگی پیداہوگئی۔ جمعیۃعلماء ہند کے وفدنے مقامی جمعیۃ علماء کے ساتھ ایس ڈی ایم پریتوش ورما، سیٹی مجسٹریٹ ریچا سنگھ اورتھانہ پربھاری نیرج بھاکونی سے ملاقات کرکے تمام صورتحال سے ان کو واقف کرایا اوراس بات کا مطالبہ بھی کیا کہ حالات پرفوری طورپرکنٹرول کیا جائے اوربے قصورلوگوں کی گرفتاری بند کی جائے۔ وفد نے متاثرہ علاقہ میں جانے کا بھی مطالبہ کیا، لیکن انتظامیہ نے کرفیوکا حوالہ دیتے ہوئے وفدکووہاں تک جانے کی اجازت نہیں دی۔
جلد بازی میں انہدامی کارروائی پراٹھایا سوال
وفد نے انتظامیہ سے سوال کیا کہ آخرجب مقامی لوگوں اورانتظامیہ میں میٹنگ کے ذریعہ یہ طے ہوگیا تھا کہ کورٹ کا فیصلہ آنے تک کسی طرح کی انہدامی کارروائی انجام نہیں دی جائے گی تواچانک اس قدرعجلت میں کورٹ کے فیصلہ کا انتظارکئے بغیرانہدامی کارروائی کیوں کی گئی، جس پرانتظامیہ نے نگرنگم کے حوالہ سے بتایا کہ انہدامی کارروائی کے آرڈرموجود ہیں، لیکن وفد نے آرڈرکی کاپی کامطالبہ کیا تو انتظامیہ کی طرف سے کوئی آرڈرنہیں دکھائی گئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس اس طرح کا کوئی آرڈرہی نہیں تھا۔ انتظامیہ کے اعلیٰ افسران نے وفد کی باتوں اورمطالبات کوسننے کے بعد یہ یقین دہانی کرائی کہ کسی بھی بے قصوراوربے گناہ کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ اور ناانصافی نہیں ہونے دی جائے گی۔ وفد میں مفتی عبدالرازق مظاہری ناظم اعلیٰ جمعیۃعلماء دہلی، مفتی عبدالقدیر آرگنائزرجمعیۃعلماء ہند، قاری محمد ساجد فیضی سکریٹری جمعیۃ علماء دہلی اورڈاکٹررضاء الدین شمس رکن جمعیۃ علماء دہلی، مولانا محمد اسلم جاوید صدرجمعیۃ علماء ضلع رامپور، مولانا محمد مقیم صدرجمعیۃعلماء ہلدوانی شامل تھے۔
بھارت ایکسپریس۔