دہلی بی جے پی کی نئی ٹیم بنانے کی قواعدشروع ہوگئی ہے۔
دہلی بی جے پی کی نئی ٹیم کی تشکیل کی بحث تیز ہوتے ہی پارٹی لیڈران میں بے چینی شروع ہوگئی ہے۔ دہلی بی جے پی کے کئی لیڈر ٹیم میں جگہ پانے کے لئے ریاستی دفتر ہی نہیں بلکہ مرکزی لیڈران سے لے کر وزرا تک کے دربار میں درباری کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ زمینی سطح پر وجود نہیں ہونے کے باوجود درباری کرنے میں ماہر ایسے ہی کئی لیڈراہم ذمہ داریاں حاصل کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ موجودہ ریاستی صدر صرف خوشنودی اور درباری کرنے والے لیڈران کو اپنی ٹیم میں جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ٹیم کے اعلان میں تاخیر ہو رہی ہے۔
اسمبلی میں شکست کا سامنا، لیکن کارپوریشن میں قابض رہی ہے بی جے پی
ریاستی صدرکی ٹیم کی تشکیل کے ساتھ ہی دہلی میں بی جے پی کے گزشتہ ت ین دہائیوں کی تاریخ پرنظرڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ تنظیمی سطح پر پارٹی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1993 کے بعد سے آج تک دہلی بی جے پی اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل نہیں کرپائی۔ حالانکہ 1997 میں ہوئے کارپوریشن الیکشن میں اس نے 134 میں سے 79 سیٹوں پر جیت حاصل کرکے اس پربھی قبضہ کرلیا۔ اس وقت دہلی میں بی جے پی کی ہی حکومت تھی۔
تاہم 1998 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بی جے پی 2002 کے میونسپل کارپوریشن میں بھی محض 16 سیٹ جیت کر پھر اقتدار میں واپس آگئی۔ پانچ سال بعد سال 2012 میں اس کی سیٹیں کم ہوکر 138 رہ گئی۔ اقتدارمخالف لہر کے خدشہ سے پریشان پارٹی نے 2017 میں امت شاہ فارمولے کے سبب پرانے کونسلروں کی گھر واپسی کے ساتھ ہی پارٹی نے نئے چہروں پرداؤں لگا دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مسلسل تیسری بار اقتدار میں لوٹی بی جے پی ریکارڈ 181 سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی۔
گروپ بازاورغیرمقبول لیڈران نے کیا نقصان
ملک بھرمیں اپوزیشن کی بے چینی کی وجہ بننے والی بی جے پی ملک کی راجدھانی میں مسلسل کمزورہوتی چلی گئی۔ تاہم، وزیراعظم نریندر مودی کے چہرے پرداؤں لگانے کی وجہ سے، پارٹی لوک سبھا انتخابات میں دو بار سے دہلی کی تمام سات سیٹیں جیت رہی ہے، لیکن جب بات دہلی اسمبلی انتخابات کی آتی ہے تووہ ناکام ہوجاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ 2022 کے کارپوریشن انتخابات میں بھی بی جے پی کوعام آدمی پارٹی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگئی۔ مانا جارہا ہے کہ پارٹی لیڈران کی گروپ بازی، ٹکٹوں کی تقسیم میں بدعنوانی اور عوام میں غیرمقبول لیڈران نے پارٹی کی یہ حالت کی ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ پارٹی میں تنظیمی سکریٹری کے عہدے پرفائزسنگھ کے دو تنظیمی جنرل سکریٹری بھی خود کو الزامات سے نہیں بچا پائے۔
تنظیم کی مضبوطی کی جگہ درباری ہوتے رہے عہدے پر فائز
نچلی سطح پرمؤثرطریقے سے کام کرنے والی پارٹی کی حالت زارکا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ پارٹی کے کئی مرکزی لیڈران اوروزراء کو سمجھا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق تنظیم سازی کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت یہ لیڈران اپنے درباریوں کو اہم ذمہ داریوں سے نوازنے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دہلی بی جے پی میں کئی ایسے لیڈران کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، جن کا اپنا زمینی وجود نہیں ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس باربھی دہلی کی سیاست سے کوئی سروکارنہ ہونے کے باوجود نہ صرف وزراء اورقومی لیڈران بلکہ سنگھ کے کئی عہدیداربھی تنظیم میں اپنے ’شاگردوں‘ کو اہم ذمہ داریاں سونپنے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
اس بار ہے مضبوط ٹیم کی امید
دہلی بی جے پی میں اہم ذمہ داری سنبھالنے والے ایک سینئر لیڈران کے مطابق، اس بار دہلی بی بی جے پی کی ٹیم کئی معنوں میں پہلے سے مضبوط ہوگی۔ اس بار صرف انہیں کارکنان کو ذمہ داری ملے گی، جو لمبے وقت سے زمین پر کام کر رہے ہیں اور تنظیم مضبوط کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکمت عملی تیار کرنے والے باصلاحیت لیڈران سے لے کرمختلف طبقات میں اثرورسوخ رکھنے والے پارٹی کارکنان تک اس میں شامل ہوں گے۔ صرف مرکزی وزراء اورسینئرلیڈران کے دربارمیں حاضری دینے والوں کو اس بار توجہ نہیں دی جائے گی۔ شاید اسی اندیشے کی وجہ سے پچھلے کچھ دنوں سے عوام میں غیرمقبول لیڈران کی بے چینی میں اضافہ ہوتا ہوا نظرآرہا ہے۔