جی20 اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ
G-20 Conference on Crime and Security: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے آج ہریانہ کے گروگرام میں این ایف ٹی، اے آئی اور میٹاورس کے دور میں جرائم اور سیکورٹی پر جی-20 کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔ افتتاحی اجلاس میں مرکزی وزیر مملکت اجے کمار مشرا، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر راجیو چندر شیکھر اور مرکزی ہوم سکریٹری سمیت کئی معزز شخصیات موجود تھیں۔ اس دو روزہ کانفرنس میں جی-20 ممالک، 9 خصوصی طور پر مدعو کیے گئے ممالک، بین الاقوامی اداروں، ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرکردہ افراد، ہندوستان اور دنیا بھر کے ڈومین ماہرین سمیت 900 سے زیادہ شرکاء حصہ لے رہے تھے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس سال ہندوستان جی-20 کی صدارت کر رہا ہے اور ہندوستان کی جی-20 صدارت کا موضوع – ’’وسودھیو کٹمبکم‘‘ یعنی ’’ایک زمین-ایک خاندان-ایک مستقبل‘‘ ہے، جو ہماری ثقافتی وراثت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جملہ شاید آج کی ’ڈیجیٹل دنیا‘ کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی آج سبھی روایتی جغرافیائی، سیاسی اور معاشی سرحدوں کے پار پہنچ چکی ہے اور آج ہم ایک بڑے گلوبل ڈیجیٹل ولیج میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ، ٹیکنالوجی انسانوں، برادریوں اور ملکوں کو اور قریب لانے والا ایک پازیٹو ڈیولپمنٹ ہے، لیکن کچھ سماج دشمن عناصر اور مفاد پرست عالمی طاقتیں بھی ہیں، جو شہریوں اور حکومتوں کو، معاشی اور سماجی نقصان پہنچانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس اس لیے زیادہ اہم ہو جاتی ہے، کیوں کہ یہ ڈیجیٹل دنیا کو سبھی کے لیے محفوظ بنانے اور باہم مربوط قدم کی سمت میں ایک اہم عالمی پہل ہو سکتی ہے۔ امت شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی جی کا ماننا ہے کہ ’’سائبر سیکورٹی اب صرف ڈیجیٹل دنیا تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ ایک قومی سلامتی- عالمی سلامتی کا معاملہ بن گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے ٹیکنالوجی کے انسانی پہلو پر زور دیا ہے۔ شاہ نے کہا کہ مودی جی نے ٹیکنالوجی کے استعمال میں ’تحمل‘ اور ’حساسیت‘ کو یقینی بنانے کے لیے ’’انٹرنیٹ آف تھنگز‘‘ کو ’’ایموشنز آف تھنگز‘‘ کے ساتھ جوڑا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی جی کی قیادت میں، ہندوستان زمینی سطح پر ابھرتی تکنیکوں کو اپنانے میں سب سے آگے رہا ہے اور ہمارا مقصد سماج کے سبھی طبقوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو زیادہ آسان اور کفایتی بنانا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ آج 840 ملین ہندوستانیوں کی آن لائن موجودگی ہے، اور 2025 تک مزید 400 ملین ہندوستانی ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 9 برسوں میں انٹرنیٹ کنکشن میں 250 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور فی جی بی ڈیٹا کی لاگت میں 96 فیصد کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پردھان منتری جن دھن یوجنا کے تحت 500 ملین نئے بینک اکاؤنٹ کھولے گئے ہیں اور 330 ملین ’روپے ڈیبٹ کارڈ‘ تقسیم کیے گئے ہیں۔
شاہ نے کہا کہ ہندوستان 2022 میں 90 ملین لین دین کے ساتھ عالمی ڈیجیٹل ادائیگی میں سب سے آگے رہا ہے اور اب تک ہندوستان میں 35 ٹریلین روپے کے یو پی آئی ٹرانزیکشن ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل عالمی ڈیجیٹل ادائیگی کا 46 فیصد ہندوستان میں ادا ہوا ہے اور 18-2017 سے لین دین کی مقدار میں 50 گنا اضافہ ہوا ہے۔ شاہ نے کہا کہ ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر کے تحت، 52 وزارتوں میں 300 سے زیادہ اسکیموں کا احاطہ کرتے ہوئے، 300 ملین روپے کی رقم سیدھے مستفیدین کے بینک اکاؤنٹ میں پہنچائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈجی لاکر میں تقریباً 6 بلین ڈاکیومنٹس جمع ہیں۔ بھارت نیٹ کے تحت 6 لاکھ کلومیٹر کی آپٹیکل فائبر کیبل بچھائی جا چکی ہے۔ شاہ نے کہا کہ مربوط موبائل ایپلی کیشن ’امنگ‘ ایپ لایا گیا، جس میں 52 ملین رجسٹریشن ہیں۔ خدمات کی ڈیجیٹل ڈیلیوری کی پہل نے، ایک دہائی میں ہندوستان کو ایک ’ڈیجیٹل ملک‘ میں بدل دیا ہے۔
امت شاہ نے کہا کہ ساتھ ہی سائبر خطروں کے امکانات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے انٹرپول کی سال 2022 کی ’گلوبل ٹرینڈ سمری رپورٹ‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رینسم ویئر، فشنگ، آن لائن گھوٹالے، بچوں کا آن لائن جنسی استحصال اور ہیکنگ جیسے سائبر جرائم کی کچھ عادتیں پوری دنیا میں سنگین خطرے کی حالت پیدا کر رہی ہیں اور ایسا خدشہ ہے کہ مستقبل میں سائبر جرائم کئی گنا مزید بڑھیں گے۔ شاہ نے کہا کہ اس تناظر میں یہ کانفرنس جی-20 صدارت کی ایک نئی اور انوکھی پہل ہے اور جی-20 میں سائبر سیکورٹی پر یہ پہلی کانفرنس ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی-20 نے اب تک معاشی نقطہ نظر سے ڈیجیٹل تبدیلی اور ڈیٹا فلو پر توجہ مرکوز کی ہے، لیکن اب کرائم اور سیکورٹی کے پہلو کو سمجھنا اور حل نکالنا بیحد ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ این ایف ٹی، اے آئی، میٹاورس اور دیگر ابھرتی ٹیکنالوجی کے دور میں مربوط اور باہم معاون طریقے سے نئے اور ابھرتے خطروں کے لیے وقت پر رد عمل دے کر ہمیں آگے رہنا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ جی-20 کے پلیٹ فارم پر سائبر سیکورٹی پر زیادہ توجہ دینے سے، اہم ’انفارمیشن انفراسٹرکچر‘ اور ’ڈیجیٹل پبلک پلیٹ فارموں‘ کی حفاظت اور تکمیل کو یقینی بنانے میں مثبت تعاون مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی-20 کے پلیٹ فارم پر سائبر سیکورٹی اور سائبر کرائم پر غور و خوض کرنے سے انٹیلی جنس اور انفارمیشن شیئرنگ نیٹ ورک کو تیار کرنے میں مدد ملے گی اور اس شعبے میں ’عالمی تعاون‘ کو تقویت ملے گی۔ شاہ نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد ڈیجیٹل پبلک گڈس اور ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کو مضبوط اور محفوظ بنانے اور ٹیکنالوجی کی طاقت کا بہتر استعمال کرنے کے لیے ایک محفوظ اور مضبوط بین الاقوامی ڈھانچہ کو فروغ دینا ہے۔
شاہ نے اعتماد کا اظہار کیا کہ اس دو روزہ کانفرنس کے 6 اجلاس میں انٹرنیٹ گورننس، ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کی حفاظت، ڈیجیٹل اونرشپ سے متعلق قانوی اور ریگولیٹری مسائل، اے آئی کا ذمہ دارانہ طریقے سے استعمال اور ڈارک نیٹ جیسے موضوعات میں بین الاقوامی تعاون کے فریم ورک پر مثبت گفتگو ہوگی۔ شاہ نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی برادری نے کھلے ذہن سے اس کانفرنس کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں جی-20 ممالک کے علاوہ، 9 مہمان ممالک، اور 2 اہم بین الاقوامی تنظیم، انٹر پول اور یو این او ڈی سی کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی مقررین بھی حصہ لے رہے ہیں۔
امور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ اس ڈیجیٹل دور کے مدنظر، سائبر سیکورٹی، گلوبل سیکورٹی کا ایک ضروری پہلو بن گئی ہے، جس کے اقتصادی اور جغرافیائی و سیاسی اثرات پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی، ٹیرر فائنانسنگ، ریڈیکلائزیشن، نارکو، نارکو-ٹیرر لنکس، اور مس انفارمیشن سمیت نئی اور ابھرتی، روایتی اور غیر روایت چنوتیوں سے بہتر طریقے سے نمٹنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی اداروں کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔
امت شاہ نے کہا کہ ہماری کنونشنل سیکورٹی چنوتیوں میں ’ڈائنامائٹ سے میٹاورس‘ اور ’حوالہ سے کرپٹو کرنسی‘ کی تبدیلی دنیا کے ممالک کے لیے یقیناً ہی تشویش کا باعث ہے اور ہم سبھی کو ساتھ مل کر اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ شاہ نے کہا کہ دہشت گرد تشدد کو انجام دینے، نوجوانوں کو ریڈیکلائز کرنے اور مالی وسائل کا انتظام کرنے کے نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں اور دہشت گردوں کے ذریعے ورچوئل اثاثہ کی شکل میں نئے طریقوں کا استعمال، مالی لین دین کے لیے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد اپنی پہچان چھپانے کے لیے اور ریڈیکل میٹریل کو پھیلانے کے لیے ڈارک نیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ شاہ نے کہا کہ ہمیں ڈارک نیٹ پر چلنے والی ان سرگرمیوں کے پیٹرن کو سمجھنا ہوگا اور اس کے حل بھی تلاش کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مضبوط اور کارگر آپریشنل سسٹم‘‘ کی سمت میں ہمیں یکسوئی سے سوچنا ہوگا۔
امت شاہ نے کہا کہ میٹاورس، جو کبھی سائنس فکشن تھا، اب حقیقی دنیا میں قدم رکھ چکا ہے اور اسے دہشت گرد تنظیموں کے لیے بنیادی طور پر پرچار، بھرتی اور ٹریننگ کے لیے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے دہشت گرد تنظیموں کے لیے ولنریبل لوگوں کا انتخاب کرنا، انہیں ٹارگیٹ بنانا اور ان کی کمزوریوں کے مطابق میٹریل تیار کرنا آسان ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میٹاورس یوزر کی پہچان کی نقل کرنے کے مواقع بھی پیدا کرتا ہے، جسے ’’ڈیپ فیک‘‘ کہا جاتا ہے اور افراد کے بارے میں بہتر بائیو میٹرک معلومات کا استعمال کرکے مجرم، یوزر کی شکل اختیار کرنے اور ان کی پہچان چوری کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ شاہ نے کہا کہ سائبر مجرموں کے ذریعے رینسم ویئر حملوں، اہم ذاتی ڈیٹا کی فروخت، آن لائن مظالم، بچوں کے استحصال سے لے کر فرضی خبروں اور ’ٹول کٹ‘ کے ساتھ مس انفارمیشن کی مہم جیسے واقعات کو انجام دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی، کریٹیکل انفارمیشن اور فائنانشیل سسٹم کو اسٹریٹجک ٹارگیٹ بنانے کی فطرت بھی بڑھ رہی ہے۔ ایسی سرگرمیاں قومی تشویش کے موضوع ہیں کیوں کہ ان کی سرگرمیوں کا سیدھا اثر قومی سلامتی، قانون اور نظم و نسق، اور معیشت پر پڑتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ہمیں ایسے جرائم اور مجرموں کو روکنا ہے، تو کنونشنل جیوگرافک بارڈر سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہوگا اور کام بھی کرنا ہوگا۔ شاہ نے نشاندہی کی کہ ڈیجیٹل جنگ میں ٹارگیٹ ہمارے طبعی وسائل نہیں ہوتے ہیں، بلکہ ہماری آن لائن کام کرنے کی صلاحیت کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کچھ ہی منٹوں کے لیے بھی آن لائن نیٹ ورک میں رخنہ مہلک ہو سکتا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ آج دنیا کی سبھی حکومتیں گورننس اور پبلک ویلفیئر میں ڈیجیٹل ذرائع کو ترغیب دے رہی ہیں اور اس سمت میں یہ ضروری ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارموں پر شہریوں کا اعتماد برقرار رہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل اسپیس میں غیر محفوظ ہونا، نیشن اسٹیٹ کا قانونی جواز اور بالادستی پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے۔ شاہ نے کہا کہ ہمارا انٹرنیٹ وژن نہ تو ملک کے وجود کو بحران میں ڈالنے والا حد سے زیادہ آزادی کا ہونا چاہیے اور نہ ہی ڈیجیٹل فائر وال جیسے علاحدگی والے ڈھانچہ کا ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے کچھ ایسے ’اوپن ایکسس ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر‘ ماڈل کھڑے کیے ہیں، جو آج دنیا میں مثال بنے ہوئے ہیں۔ ہندوستان نے ڈیجیٹل آئڈنٹیٹی کا بنیادی ماڈل، ریئل ٹائم فاسٹ پیمنٹ کا یو پی آئی ماڈل، اوپن نیٹ ورک فار ڈیجیٹل کامرس (او این ڈی سی)، صحت کے شعبے میں اوپن ہیلتھ سروس نیٹ ورک جیسے اور بھی ماڈل تیار کیے ہیں۔ شاہ نے کہا کہ آج دنیا کو ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کے لیے ایک نئے سسٹم کی ضرورت ہے، جو انفارمیشن اور فائنانس کے فلو میں ثالثی کرے اور اس سے دنیا کے ممالک کو اپنے شہریوں کو ڈیجیٹل طریقے سے مضبوط بنانے میں سہولت ہوگی۔
امت شاہ نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک سائبر حملوں کے شکار ہوئے ہیں اور یہ خطرہ دنیا بھر کی سبھی بڑی معیشتوں پر منڈلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کے تخمینہ کے مطابق، سال 2023-2019 کے دوران سائبر حملوں سے دنیا کو تقریباً 5.2 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا تھا۔ میلیشئس تھریٹ ایکٹرز کے ذریعے کرپٹو کرنسی کا استعمال اس کی پہچان اور روک تھام کو اور ڈیجیٹل بنا دیتا ہے۔ شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی جی کی قیادت میں ہندوستانی حکومت نے یکساں سائبر کارروائی کا خاکہ تیار کرنے، سائبر جرائم کی ریئل ٹائم رپورٹنگ، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی صلاحیت سازی، اینالیٹکل ٹولز ڈیزائن کرنے، فارنسک لیباریٹریز کا ایک قومی نیٹ ورک قائم کرنے، سائبر ہائی جین کو یقینی بنانے، اور ہر شہری تک سائبر بیداری کی تشہیر کرنے جیسے ہر شعبے میں کام کیا ہے۔
شاہ نے کہاکہ اب ملک کے سبھی پولیس تھانوں میں کرائم اینڈ کرمنل ٹریکنگ نیٹ ورک اینڈ سسٹم (سی سی ٹی این ایس) نافذ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم کے خلاف وسیع جوابی کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے ہندوستانی حکومت نے انڈین سائبر کرائم کوآرڈی نیشن سنٹر (آئی 4 سی) قائم کیا ہے۔ ہندوستانی حکومت نے ’سائی ٹرین‘ پورٹل نامی ایک وسیع اوپن آن لائن ٹریننگ پلیٹ فارم کی تعمیر بھی کی ہے، جو شاید سائبر سیکورٹی کے شعبے میں دنیا کا سب سے بڑا سائبر ٹریننگ پروگرام ہوگا۔
امور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر نے ایک سیف اینڈ سیکور سائبر اسپیس یقینی بنانے کے لیے شرکاء کی توجہ کچھ نکات کی جانب مبذول کرائی۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے بنے سبھی ممالک کے قوانین میں یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ سائبر کرائم کی سرحد سے عاری نوعیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ملکوں کے الگ الگ قانون کے تحت، ردعمل پیش کرنے کا انتظام ہمیں کرنا ہوگا۔ اس شعبے میں عالمی تعاون سے سائبر سیکورٹی بینچ مارکس، بیسٹ پریکٹسز، اور ریگولیشن میں تال میل بنانے میں مدد ہوگی۔ شاہ نے اعتماد کا اظہار کیا کہ اس سمت میں یہ کانفرنس ایک ٹھوس ایکشن پلان ہمارے سامنے رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ سائبر سیکورٹی کی پالیسیوں میں انیگریٹڈ اور اسٹیبل ایپروچ سے بین عمل پذیری میں آسانی ہوگی، اطلاعات کے اشتراک میں اعتماد بڑھے گا، اور ایجنسیوں کے پروٹوکول اور رسورس گیپ میں کمی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے بنیادی انفراسٹرکچر کو محفوظ بنانے کے لیے ممبر ممالک کے درمیان صنعتی اور تعلیمی دنیا کی سرگرم حمایت سے ریئل ٹائم سائبر تھریٹ انٹیلی جنس شیئر کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ سائبر واقعات کی رپورٹنگ اور ان پر کارروائی میں سبھی ممالک کی سائبر ایجنسیوں میں زیادہ تال میل ہونا چاہیے۔ پرامن، محفوظ، مزاحم اور اوپن انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی ماحول کی تشکیل کے لیے مشترکہ کوششوں سے سرحد پار سائبر جرائم کی جانچ میں تعاون آج انتہائی ضروری ہے۔ انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے مجرمانہ استعمال پر اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق تیزی سے ثبوتوں کو جمع کرنا، جانچ اور تعاون کا ہونا لازمی ہے۔ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کے سبب ابھرتے خطروں سے نمٹنے کے لیے کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیموں (سی ای آر ٹی) کو مضبوط بنانا ہوگا۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ مؤثر پریڈکٹو- پریونٹیو- پروٹیکٹو اینڈ ریکوری ایکشن کے لیے ایک چوبیسوں گھنٹے سائبر سیکورٹی میکانزم ہونا چاہیے۔ سائبر تھریٹ لینڈ اسکیپ سرحدوں سے پار تک پھیل گیا ہے، جس کی وجہ سے سائبر کرائم سے مؤثر طریقے سے لڑنے کے لیے قوموں، اداروں اور متعلقین کے ذریعے کوآپریشن اور انفارمیشن کا تبادلہ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ ذمہ داری کے ساتھ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ’شفاف اور ذمہ دار اے آئی اور ایمرجنگ ٹیکنالوجیز گورننس فریم ورک‘ بنانے کا وقت آ گیا ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی سے لیس سائبر کرائم میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے ممالک کے درمیان ایک ’ڈیڈیکیٹڈ کامن چینل‘ کی ضرورت ہے، تاکہ ایسی مالی بے ضابطگیوں کو روکا جا سکے۔ این ایف ٹی پلیٹ فارموں کی تھرڈ پارٹی تصدیق سے اعتماد بڑھے گا اور مجرمانہ سرگرمیوں پر روک لگے گی۔
اپنے خطاب کے آخر میں امور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ کوئی بھی ملک یا ادارہ، اکیلے سائبر خطروں کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے – اس کے لیے ایک مشترکہ محاذ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مستقبل نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم حساسیت کے ساتھ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے اور عوامی تحفظ اور سیکورٹی کو یقینی بنانے کے اپنے وعدے پر قائم رہیں، اور یہ کام اکیلے حکومتوں کے ذریعے نہیں سنبھالا جا سکتا ہے۔ شاہ نے کہا کہ ہمارا مقصد ’سائبر سکسیس ورلڈ‘ کی تعمیر کرنا ہے، نہ کہ ’سائبر فیلیور ورلڈ‘ کی۔ انہوں نے کہا کہ ساتھ مل کر ہم، سبھی کے لیے ایک محفوظ اور خوشحال ڈیجیٹل مستقبل کو یقینی بناتے ہوئے ان ٹیکنالوجیز کی صلاحیتوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔