اس بار بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات کے لیے 400 پلس کا ہدف رکھا ہے۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ وہ نریندر مودی کے چہرے، 10 سال کی محنت اور ہندوتوا کی گاڑی پر سوار ہو کر تمام ریکارڈ توڑ سکتی ہے۔ لیکن پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد زمین پر ماحول کچھ بدل گیا ہے۔ ریلیوں سے ‘مودی کی گارنٹی’ کا نعرہ غائب ہو گیا ہے، خود پی ایم مودی اس کا ذکر نہیں کر رہے ہیں۔ ’اب کی بار 400 پار‘ بھی زیادہ نہیں سنی جاتی۔
پہلے مرحلے کے بعد کیا تبدیلی آئی؟
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مسائل پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے پہلے ہی چھائے ہوئے تھے۔ جب بی جے پی نے اپنا سنکلپ پتر جاری کیا تو توجہ وکست بھارت اور مودی کی گارنٹی جیسے مسائل پر تھی۔ لیکن پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد اس حکمت عملی میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ یہ تبدیلی یہ ہے کہ بی جے پی پولرائزیشن کی حکمت عملی پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے ہندوتوا کی سیاست میں واپس لوٹ رہی ہے۔
پہلے جنوبی، اب ہندی پٹی کی سیاست
یہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں ساوتھ کی زیادہ تر سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی، تمل ناڈو میں 39 سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی۔ اب بی جے پی کے سامنے چیلنج یہ تھا کہ اس کے ہندو مسلم، پولرائزنگ ایشوز اسے جنوبی ریاست میں زیادہ ووٹ نہیں دلا سکتے۔ اسی وجہ سے پی ایم مودی نے ریاست کی ثقافت اور تمل ناڈو میں اپنی حکومت کے کام کاج پر توجہ مرکوز کی۔ اس کے ساتھ ہی کرپشن کے خلاف کارروائی کو ایشو بنانے کی کوشش بھی دیکھنے میں آئی۔
لیکن اب دوسرے مرحلے میں ہندی ہارٹ لینڈ میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سیٹوں کی بات کریں تو ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں آسام سے 5، بہار سے 5، چھتیس گڑھ سے 3، جموں و کشمیر سے 1، کرناٹک سے 14، کیرالہ سے 20، مدھیہ پردیش سے 6، مہاراشٹرا سے 8، راجستھان سے 13 ،تریپورہ کی ایک سیٹ، یوپی کی 8 اور مغربی بنگال کی 3 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی۔ یاد رہےکہ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے بہار، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، راجستھان، یوپی میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایک طرح سے ان ریاستوں میں پارٹی نے کلین سویپ کیا تھا۔
بی جے پی کی حکمت عملی کیا ہے؟
اب بی جے پی سمجھ گئی ہے کہ یوپی، بہار جیسی ریاستوں میں صرف ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کرنا مشکل ہے۔ صرف ایک ترقی یافتہ ہندوستان یا وکست بھارت کا خواب دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف لاناآسان نہیں ہے۔ اس لیے وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک طے شدہ حکمت عملی کے مطابق کانگریس کے منشور کو ڈی کوڈ کرنے کا کام کیا گیا ہے۔ یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کانگریس کا منشور مسلمانوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔
پی ایم مودی نے پہلے ایک ریلی میں کہا تھا کہ کانگریس کے منشور میں مسلم لیگ کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اس کے بعد پی ایم مودی نے کہا کہ کانگریس آپ کی جائیداد کو زیادہ بچے والے لوگوں میں بانٹنا چاہتی ہے۔ اس کے بعد پی ایم مودی نے خواتین کے منگل سوتر کا ذکر کیا اور کہا کہ کانگریس والے آپ کے منگل سوتر کو بھی محفوظ نہیں رہنے دیں گے۔ اب بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں کہ پی ایم مودی نے اچانک منگل سوتر کا ذکر کیوں کیا؟ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ کانگریس کے منشور کا اعلان ہوئے کئی دن گزر چکے ہیں، لیکن دوسرے مرحلے سے پہلے ہی پی ایم کو منگل سوتر کیسے یاد آیا؟
خواتین کے شکوک سے کیا بی جے پی کو ووٹ ملے گا؟
اب سب جانتے ہیں کہ بی جے پی آدھی آبادی کا ووٹ چاہتی ہے، لیکن اس سے بڑی بات یہ ہے کہ پارٹی اب ان سے صرف اجولا یاسرکاری مکان کے نام پر ووٹ نہیں مانگ سکتی۔ پارٹی کو جذباتی مسئلے کی بھی ضرورت تھی جس کے ذریعے خواتین کو راغب کیا جا سکے۔ اب بی جے پی نے خواتین کے منگل سوتر کو ایک بڑا مدعا بنا دیا ہے۔چونکہ ہندو مذہب میں، کسی بھی شادی شدہ عورت کے لیے، اس کا منگل سوتر سب کچھ ہوتاہے، منگل سوتر اس کا اپنے شوہر سے تعلق کی نشانی ہے، یہ شادی کے بندھن کی علامت ہے۔ ایسے میں اگر کوئی یہ کہے کہ تمہارا منگل سوتر نہیں چھوڑا جائے گا، وہ بھی تم سے چھین لیا جائے گا، تو ایسے میں کوئی بھی عورت خوفزدہ ہو جائے گی، ہزار شکوک وشبہات اس کے ذہن میں پیدا ہو جائیں گے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ بی جے پی زمین پر موجود خواتین کے ذہنوں میں وہی خوف پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اس بیانیے کی بنیاد پر خواتین کے ایک بڑے حصے کو کانگریس سے دور ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے مردوں سے زیادہ آگے آرہی ہیں۔ 23 میں سے 18 ریاستیں ایسی ہیں جہاں خواتین بڑی تعداد میں ووٹ ڈالتی ہیں، ان میں وہ ریاستیں بھی شامل ہیں جہاں دوسرے مرحلے میں ووٹنگ ہونے جا رہی ہے۔ اب جن خواتین کے لیے منگل سوتر ضروری ہے ان میں امیر، غریب، دلت اور دیگر تمام چھوٹی بڑی ذاتیں شامل ہیں۔
فی الحال بی جے پی ذات پات سے اوپر اٹھ کر کچھ ایسے مدعا اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے جس کی بنیاد پر وہ اس طبقے کے ووٹ حاصل کر سکے۔ بی جے پی کے لیے یہ اس لیے زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ اسے اپوزیشن کے بیانیے کو ناکام بنانا ہے، فی الحال انڈیا الائنس ہر ریلی میں یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ بی جے پی کو آئین میں تبدیلی کے لیے 400 سیٹوں کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ملک میں اگلی بار الیکشن نہیں ہوں گے۔ اب بی جے پی نے خواتین کے منگل سوتر اور دیگر پولرائزنگ مدعوں کے ذریعے اپوزیشن کے الزامات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
قوم پرستی نہیں تو پولرائزیشن ہی سہی
بی جے پی کے کئی مقامی لیڈروں کا کہنا ہے کہ اس بار چونکہ زمین پر قوم پرستی یعنی راشٹرواد کی لہر نہیں ہے، اس لیے جیت حاصل کرنا مشکل ہو سکتی ہے۔ صرف ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کرنا مشکل لگتا ہے۔ دراصل 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران پاکستان پر ایئراسٹرائیک نے بی جے پی کے حق میں ماحول بنایا تھا، اس بار ایسا کوئی مدعا زمین پر سرگرم نظر نہیں آتا۔ایسے میں بی جے پی اب ایسے مدعوں کو تلاش کر رہی ہے جس کی بنیاد پر سماج میں بڑے پیمانے پر پولرائزیشن ہو سکے۔ اب منگل سوتر بیان کے ذریعے ہندو خواتین کو کانگریس کے خلاف ڈرایا جا رہا ہے۔دوسری طرف جب پی ایم مودی یہ کہتے ہیں کہ آپ کی جائیداد اقلیتوں میں بانٹ دی جائے گی تو اس کے ذریعے ہندو برادری میں غصہ پیدا کرنے کی کوشش صاف نظر آرہی ہے۔ یاد رہے کہ پولرائزیشن دو طریقوں سے ہوتی ہے، یا تو کوئی بڑا فرقہ وارانہ واقعہ ہو جائے یا کوئی ایسا مدعا سامنے آجائے جس پر لوگوں کی بہت مضبوط رائے ہو۔ اب کانگریس کے منشور کو مسلم لیگ سے جوڑ کر پی ایم مودی نے سماج میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا کانگریس واقعی عام آدمی کی جائیداد دوسروں میں تقسیم کرے گی؟ وہیں منگل سوتر کے ذریعے تمام ہندو خواتین کو کانگریس مخالف کرنے کی کوشش ہورہی ہے، لیکن ان تمام چیزوں سے الگ ہٹ کر غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جس مودی کی گارنٹی اور 400 پار کے نعرے کے ساتھ بی جے پی نے اپنے انتخابی مہم کی شروعات کی تھی ، ایک فیز کی ووٹنگ کے بعد ہی اب ناہی پی ایم مودی اور ناہی کوئی دوسرا رہنما مودی کی گارنٹی اور 400 پار کے نعرے کو اس شدت کے ساتھ پیش کرتا ہے جو شروعاتی دنوں میں دیکھنے کو مل رہے تھے۔ یہ ایک سوال ہے جو جواب چاہتا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔