Bharat Express

Supreme Court: سپریم کورٹ نے جبراً مذہب تبدیلی کو بتایا سنگین مسئلہ، سیاسی مسئلہ نہ بنانے کی ہدایت

Supreme Court on Conversion Issue: ریاستی حکومت نے کہا کہ گجرات ہائی کورٹ نے 2003 کے ایکٹ کی دفعہ 5 کے نفاذ پر روک لگا دی، جو حقیقت میں ایک شخص کو اپنی خواہش سے ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں تبدیلی ہونے کے لئے ایک قابل عمل انتظام ہے۔

تبدیلی مذہب کی عرضی دیکھ کر سپریم کورٹ ہوا ناراض، کہا - ہر کوئی لے کر آجاتا ہے اس طرح کا پی آئی ایل

Supreme Court News: سپریم کورٹ (Supreme Court)  نے پیر کے روز مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو جبراً مذہب تبدیلی کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دینے کا مطالبہ کرنے والی عرضی پر اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی کی مدد مانگی۔ جسٹس ایم آر شاہ کی صدارت والی بینچ نے کہا کہ مذہب تبدیلی ایک اہم موضوع ہے اور اسے سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہئے۔ طاقت کا استعمال یا لالچ کے ذریعہ مذہب تبدیلی کے خلاف وکیل اشونی اپادھیائے کے ذریعہ دائر عرضی پر بینچ میں شامل جسٹس سی ٹی روی کمار نے اے جی کی مدد مانگی۔

جسٹس شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا، ‘یہ مذہب تبدیلی کا معاملہ ہے۔ جبراً مذہب تبدیلی، لالچ یا کچھ دیگرچیزیں، یہ الزامات ہیں… ہم کچھ بھی نہیں کہہ رہے ہیں، یہ حقیقت میں ہوا ہے یا نہیں، ہم ابھی اس پر غور کر رہے ہیں۔ ہم ہندوستان کے اٹارنی جنرل کے طور پر اس پر آپ کی مدد چاہتے ہیں’۔ انہوں نے پوچھا، ‘ایسے معاملے میں کیا کیا جانا چاہئے؟… آزادی کے حقوق، مذہب کے حقوق اور لالچ کے ذریعہ کسی بھی چیز کو مذہب تبدیل کرانے کے حقوق میں فرق ہے۔ اگر ایسا ہو رہا ہے، تو کیا کیا جانا چاہئے… مزید کیا اصلاحی اقدامات کیے جا سکتے ہیں.. ہم اے جی کی مدد چاہتے ہیں’۔

ہمیں پورے ملک کی تشویش ہے: سپریم کورٹ

تمل ناڈو حکومت کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل پی ولسن نے کہا کہ یہ یہ عرضی سیاست سے متاثر ہے۔ انہوں نے ترک دیا کہ ریاست میں اس طرح کی مذہب تبدیلی کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ اس پر بینچ نے کہا، ‘آپ کے اس طرح پُرجوش ہونے کی الگ الگ وجوہات ہوسکتی ہیں۔ عدالتی کارروائی کو دیگر چیزوں میں مت بدلئے۔ ہمیں پورے ملک کی تشویش ہے۔ اگر یہ آپ کی ریاست میں کچھ بھی غلط نہیں ہورہا ہے، تو اچھا ہے’۔ ‘اسے سیاسی مت بنائیے’۔

عدالت اشونی اپادھیائے کے ذریعہ دائرکی گئی ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی، جس میں مرکز اور ریاستوں کو فرضی مذہب تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے لئے سخت اقدامات کئے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے معاملے کی آئندہ سماعت 7 فروری کو مقرر کی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اشونی اپادھیائے کے ذریعہ دائر مفاد عامہ کی عرضی پر وکیلوں کے اعتراض کی وجہ سے نام تبدیل کر کے ‘دوبارہ مذہبی تبدیلی کا مسئلہ’ رکھ دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:  Pravasi Bharatiya Divas 2023: وزیر اعظم مودی نے تارکین وطن کو بتایا ‘ملک کا سفیر’، کہا- یہ ہندوستان

جبراً مذہب تبدیلی ‘بہت سنگین مسئلہ’ ہے: سپریم کورٹ

عدالت عظمیٰ (Supreme Court)  نے 5 دسمبر کو کہا تھا کہ جبراً مذہب تبدیلی ‘بہت سنگین مسئلہ’ ہے اور اس بات پر زور دیا تھا کہ عطیہ کا استقبال ہے، لیکن عطیہ کا مقصد مذہب تبدیلی نہیں ہونی چاہئے۔ عدالت عظمیٰ نے مرکز کو مذہب تبدیلی مخالف قانون اور دیگر متعلقہ معلومات کے سلسلے میں مختلف ریاستی حکومتوں سے ضروری جوابات حاصل کرنے کے بعد تفصیلی جواب داخل کرنے کی اجازت دی۔

-بھارت ایکسپریس

Also Read