لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ (تصویر: سنسد ٹی وی)
لوک سبھا میں کانگریس سمیت اہم اپوزیشن جماعتوں نے بدھ کے روز نریندرمودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویزپیش کی ہے۔ گزشتہ 9 سالوں میں یہ دوسری بارہے جب یہ حکومت تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرے گی۔ اس سے پہلے، جولائی 2018 میں مودی حکومت کے خلاف کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد کی تجویزلائی تھیں۔ تب اس تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں صرف 126 ووٹ پڑے تھے، جبکہ اس کے خلاف 325 اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ کیا تھا۔
تحریک عدم اعتماد کا کیا ہے ضابطہ؟
اس باربھی تحریک عدم اعتماد کی تجویز کا انجام پہلے سے ہی تقریباً واضح ہے کیونکہ تعداد کے لحاظ سے بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت پوری طرح سے محفوظ اور فیصلہ اس کے ہی حق میں آنے کی امید ہے۔ ایوان زیریں میں اپوزیشن گروپ کے 150 سے کم اراکین ہیں، لیکن ان کی دلیل ہے کہ وہ بحث کے دوران منی پورموضوع پر حکومت کو گھیرتے ہوئے عوام سے جڑی لڑائی میں حکومت کو شکست دینے میں کامیاب رہیں گے۔ تحریک عدم اعتماد کی تجویزکا ذکرآئین کے آرٹیکل 75 میں کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق، اگربرسراقتداراس تجویز پر ہوئی ووٹنگ میں ہارجاتا ہے تو وزیراعظم سمیت پورے کابینہ کو استعفیٰ دینا ہوتا ہے۔ اراکین لوک سبھا میں قاعدہ 184 کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہیں اورایوان کی منظوری کے بعد اس پربحث کی جاتی ہے اورپھراس پر ووٹنگ کی جاتی ہے۔
جواہر لال نہرو سے لے کرمنموہن حکومت کو کرنا پڑا تھا سامنا
ہندوستانی پارلیمنٹ کی تاریخ میں تحریک عدم اعتماد کی تجویزلانے کا سلسلہ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو کے وقت ہی شروع ہوگیا تھا۔ پنڈت جواہرلال نہرو کے خلاف 1963 میں آچاریہ کرپلانی تحریک عدم اعتماد کی تجویزلے کرآئے تھے۔ اس تجویزکے حق میں صرف 62 ووٹ پڑے تھے جبکہ مخالفت میں 347 ووٹ ہوئے تھے۔ اس کے بعد لال بہادرشاستری، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، پی وی نرسمہا راؤ، اٹل بہاری واجپئی، منموہن سنگھ سمیت کئی وزرائے اعظم کوتحریک عدم اعتماد کی تجویزکا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بھارت ایکسپریس۔