وطن عزیز کے نام کو لے کر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے نئے اتحاد کا نام I.N.D.I.A. رکھنے کے بعد اب حکومت خود اس لفظ کو ہٹانے کی تیاری کر رہی ہے۔ تازہ ترین معاملہ صدرجمہوریہ کے دعوت نامے کا ہے، جسے G-20 سربراہی اجلاس کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس میں صدر کو انڈیا کے صدر کے بجائے صدر بھارت لکھا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہنگامہ شروع ہو گیا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ تین سال قبل سپریم کورٹ میں انڈیا کا نام تبدیل کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا؟
سپریم کورٹ نے کیا کہاتھا؟
دراصل سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ انڈیا کو بھارت بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی جانی چاہیے۔ درخواست میں کہا گیا کہ انڈیا یونانی لفظ انڈیکا سے آیا ہے، اس لیے اس نام کو ہٹایا جائے۔ اس دوران سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ انڈیا کا مطلب بھارت ہے۔ اس وقت کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے اس عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار نے یہ معاملہ عدالت میں کیوں اٹھایا، جب کہ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ‘انڈیا بھارت ہے’۔
یہ بھی پڑھیں: راشٹرپتی بھون میں منعقد ہونے والے عشائیے کے دعوت نامہ پر تنازعہ
آئین میں ترمیم کا مطالبہ
اس دوران درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے کہا کہ یہ مطالبہ متعلقہ وزارت کو بھیجنے کی اجازت دی جائے جسے سپریم کورٹ نے قبول کر لیا۔ درخواست میں آئین کے آرٹیکل 1 کا ذکر کیا گیا تھا، جس میں انڈیا کا نام استعمال کیا گیا ہے، درخواست گزار نے اسی آرٹیکل میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔اس وقت کے ہنگامے کے بعد اب ایک بار پھر لفظ انڈیا کو لے کر ہنگامہ شروع ہو گیا ہے۔ صدر کا دعوت نامہ سامنے آنے کے بعد کئی اپوزیشن لیڈروں نے مودی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے سوال کیا ہے کہ کل اگر کوئی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے نام کو بھارت کے نام پر رکھا جاتا ہے تو کیا بی جے پی اسے بھی بدل دے گی؟حالانکہ حکمراں جماعت کے علاوہ کئی سرکردہ شخصیات نے بھی بھارت کے حق میں ہی اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔