اترپردیش کے کشی نگر کے تمکوہیراج نگر میں رہنے والے تین بچے آنکھوں کی سنگین بیماری میں مبتلا ہیں۔ معلوم نہیں ان آنکھوں کو ایسی کون سی بیماری ہوئی جو پیدائش کے بعد 5 سال تک ٹھیک تھی اور آہستہ آہستہ ان کی بینائی کم ہونے لگی۔ اور پھر ایسا بھی وقت آیاجب ان کی آنکھوں نے دیکھنا چھوڑ دیا۔ جس کی وجہ سے پہلے ہی مالی بحران کا شکار اس خاندان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ والد نے اپنے بچوں کی بینائی بحال کرنے کی بہت کوشش کی اور مقامی طور پر ان کا علاج کروایا لیکن ڈاکٹروں نے ان کے بچوں کو دہلی کے ایمس ریفر کر دیا۔
مالی بحران کا شکار اس خاندان کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کا دہلی میں علاج کروا سکے۔ تھکے ہارے وہ سرکاری امداد کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے، لیکن غریبوں کو 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج فراہم کرنے والی اسکیم بھی اس خاندان کے لیے کام نہیں کر رہی ہے کیونکہ اس اسکیم کے تحت خاندان کا آیوشمان کارڈ بھی نہیں بن سکا ہے۔ ایسے میں بھارت ایکسپریس نیوز نیٹ ورک نے ایک مہم شروع کی جس کا نام مشن اجالا دیا گیا اور اس معاملے پر ریاستی حکومت سے لیکر دہلی تک آواز پہنچانے کی کوشش کی گئی اور اچھی بات یہ رہی کہ بھارت ایکسپریس کے مشن اجالا اور خبروں کا شاندار اثر ہوا ،اس پر نہ صرف سی ایم او یوپی حکومت بلکہ کشی نگر کے رکن پارلیمنٹ نے بھی مدد کا بھروسہ دلایا ہے۔
بھارت ایکسپریس پرچلائی گئی اس مہم کا بڑا اثر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور بھارت ایکسپریس کے مشن اجالا کو نوٹس میں لیتے ہوئے ایک طرف جہاں دیوریا سے بی جے پی کے رکن اسمبلی اور سی ایم او شلبھ منی ترپاٹھی نے متاثرہ خاندان کی مالی مدد کا بھروسہ دلایا ہے اور بے سہارا لوگوں کی آواز بننے کیلئے سی ایم او نے بھارت ایکسپریس کا شکریہ ادا کیا ہے۔تو وہیں دوسری طرف بی جے پی کے کشی نگر کے رکن پارلیمنٹ وجئے دوبے نے بھی بھارت ایکسپریس سے خصوصی بات چیت میں متاثرہ خاندا کا ایمس میں اعلاج کیلئے بھرپور سپورٹ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اوراس کیلئے اپنے عملے کو متحرک بھی کردیا ہے ۔ اس موقع سے رکن پارلیمنٹ نے بھی بھارت ایکسپریس کا شکریہ ادا کیا۔ ادھر متاثرہ خاندان بھی اس خبر کے اثر سے کافی خوش ہے چونکہ اس مشن اجالا سے ممکن ہے کہ ان کے بچوں کی آنکھوں کی روشنی لوٹ آئے چونکہ بہترین علاج ملنے کی امید روشن ہوگئی ہے۔
یاد رہے کہ مطابق کشی نگر کے چندریکا چوہان قصبے کے تاجروں کے پاس پالاداری کا کام کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے۔ ان کے تین بچے ہیں، دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ بڑے بیٹے راجن کی عمر 16 سال، بیٹی گیتا کی عمر 14 سال اور سب سے چھوٹا بیٹا مکیش 12 سال کا ہے۔ پیدائش سے لے کر 5 سال تک تمام بچوں کی آنکھیں ٹھیک تھیں لیکن 5 سال بعد ان کی آنکھیں اچانک خراب ہونے لگیں۔ بچوں کے والد چندریکا بتاتے ہیں کہ پانچ سال کی عمر کے ہوتے ہی تمام بچوں میں اندھے پن کی بیماری شروع ہو گئی۔ پہلے بینائی کم ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ بچوں کی بینائی بالکل ختم ہو گئی۔ فی الحال بچوں کی بینائی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
چندریکا، جو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے ایک مزدور کے طور پر کام کرتا ہے، کسی طرح مقامی سطح پر علاج کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن پھر ڈاکٹروں نے بچوں کو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، نئی دہلی ریفر کر دیا۔ چندریکا کا کہنا ہے کہ آیوشمان کارڈ مالی طور پر مضبوط لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے، غربت کی وجہ سے بے بس اور ضرورت مند ہونے کے باوجود ان کا کارڈ نہیں بنایا گیا، اگر یہ کارڈ بن جاتا تو شاید ایمس میں اپنے بچوں کا علاج کروانا ممکن ہوتا۔ . چندریکا کے چھوٹے بیٹے مکیش نے بتایا کہ اگر ان کی آنکھوں کا علاج کیا جاتا تو وہ پڑھائی کے بعد انجینئر بننا چاہتا تھا۔ ان کی آنکھوں کا علاج ممکن ہو جاتا لیکن حکمرانوں کی لاعلمی اور نظام کی بے حسی ان کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے۔ حکومت جاگی تو ان کی زندگیوں میں روشنی آسکتی ہے۔اور ایسا کہا جاسکتا ہے کہ اس مسئلے پر بھارت ایکسپریس نے حکومت کو بیدار کردیا ہے اور اس کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔