ملزم ساجد کے والد اور چچا کو گرفتار کیا گیا ہے۔
یوپی کے بدایوں میں دوبچوں کا قتل کرنے والے ملزم ساجد کا پولیس نے تین گھنٹے کے اندرہی انکاؤنٹرکردیا۔ ساجد کی موت کے ساتھ ہی بچوں کے قتل کی گتھی مزید الجھ گئی ہے کہ آخر اس نے بچوں کو کیوں مارا تھا۔ حالانکہ جس طرح پولیس ساجد کےانکاؤنٹرکا دعویٰ کررہی ہے، لیکن وہ بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔
دراصل، ایف آئی آرمیں لکھا گیا کہ ساجد کو پکڑکرہجوم نے ہی پولیس کوسونپا۔ لیکن بھیڑاوراندھیرے کا فائدہ اٹھاکرجاوید بھاگ گیا۔ اس کے بعد جب اس کا پولیس ٹیم سے سامنا ہوا تواس نے فائرنگ کردی اورجوابی کارروائی میں گولی لگنے سے اس کی موت ہوگئی، لیکن متاثرہ اہل خانہ اوران کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہی ساجد کوپولیس کو سونپ دیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی انکاؤنٹرپرکئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ انہی سوالوں کی وجہ سے ڈی ایم نے مجسٹریل جانچ کے احکامات دے دیئے ہیں اور15 دنوں میں رپورٹ مانگی ہے۔
پولیس پر اٹھ رہے یہ سوال
منگل کی شام جب کلیدی ملزم ساجد، سنگیتا کے گھر پہنچا، تب کیا اس کے پاس چاقو کے ساتھ طمنچہ بھی تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ساجد نے ٹیم پرفائرنگ کی تھی، جس کے بعد جوابی کارروائی میں اس کی موت ہوگئی۔
متاثرہ فیملی کا کہنا ہے کہ بچوں کے قتل کے بعد انہوں نے اسے گھر میں ہی بند کردیا تھا اور جب پولیس آئی تھی توپولیس کو سونپ دیا تھا تو پھر وہ پولیس کی گرفت سے کیسے فرار ہوگیا؟
جب ساجد کو گھر والوں نے کے حوالے کیا تو اس وقت پولیس نے کیا اس کی تلاشی نہیں لی تھی، جو اس نے شیخو پورہ کے جنگلوں میں طمنچہ نکال کر پولیس پرفائرنگ شروع کردی؟
جس وقت ساجد کو پولیس کے حوالے کیا گیا اور جب انکاؤنٹر ہوا تواس درمیان اس کے پاس طمنچہ کہاں سے آگیا؟ اگر وہ بچوں کو مارنے کے لئے سنگیتا کے گھر طمنچہ لے کرگیا تھا تو جب پولیس نے گھرسے ساجد کو پکڑا تو اس سے طمنچہ برآمد نہیں کیا؟
مہلوک بچوں کی دادی نے کیا بتایا؟
مہلوک بچوں کی دادی منّی دیوی نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ ساجد خون سے شرابور چاقو لے کر کھڑا ہوا تھا۔ پھر میں نے باہر سے گیٹ بند کردیا۔ تب تک پولیس کی ٹیم آئی اور اسے پکڑلیا۔ جب اسے پولیس کی ٹیم لے کر بیٹھی ہوئی تھی تب میں نے اس کو 4-3 چپلیں بھی ماری۔ پولیس والے اسے پکڑ کرلے گئے۔ اس دوران ساجد اور جاوید دونوں تھے۔ ساجد اوپرتھا اور جاوید نیچے تھا۔ اس کے علاوہ بچوں کے والد ونود کمار اور ان کے پڑوسیوں کا بھی کہنا ہے کہ واردات کو انجام دینے کے بعد ساجد بھاگا نہیں تھا، وہ چاقو لے کرگھر کے اندر ہی کھڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گھر کا دروازہ بند کردیا گیا تھا، جب پولیس آئی تبھی کھولا گیا اور پھر پولیس اسے لے کرچلی گئی تھی۔
بدایوں کے ایس ایس پی نے انکاؤنٹر پر کیا کہا تھا؟
بدایوں کے ایس ایس پی آلوک پردیا درشی نے بتایا کہ بھیڑاوراندھیرے کا فائدہ اٹھا کرساجد بھاگ گیا تھا۔ راستے میں بھیڑنے اس کوپکڑنے کی کوشش کی، لیکن وہ بھاگنے میں کامیاب رہا۔ اطلاع ملتے ہی پولیس کی ٹیم نے آکرصورتحال کوسنبھالا اورساجد کے پیچھے پولیس کی ٹیمیں لگائی گئیں۔ تقریباً ایک دو گھنٹے بعد وہ شیخوپورکے جنگلوں میں دکھائی دیا، جب پولیس نے اسے روکنے کی کوشش کی تو پولیس پارٹی پر اس نے فائرنگ کی۔ جوابی فائرنگ میں اس کی موت ہوگئی۔
کیا ہے بدایوں کا پورا سانحہ؟
بدایوں کے سول لائنس تھانہ علاقے میں منگل (19 مارچ) کی دیرشام ساجد نام کا شخص اپنی دوکان کے سامنے والے ونود کمارکے گھرآیا تھا۔ اس دوران ونود گھرپرنہیں تھا۔ ساجد نے ونود کی اہلیہ سنگیتا سے پانچ ہزارروپئے مانگے۔ اس کے بعد سنگیتا نے شوہرسے فون پربات کرنے کے بعد اسے روپئے دے دیئے۔ جب اس نے روپئے لے لئے توکہا کہ اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ہے اورچھت پرچلا گیا۔ جہاں دونوں بچے آیوش (12) اوراہان (6) تھے۔ ساجد نے ان پرتیزدھاردارچاقو سے حملہ کردیا، جس میں دونوں کی موت ہوگئی۔ اس کے بعد پولیس نے ساجد کا انکاؤنٹرکردیا تھا۔
بھارت ایکسپریس۔