نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میںسٹیزن شپ ایکٹ 1955 کی دفعہ 6 اے کوآئینی قراردیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 ججوں کی بنچ نے کثرت رائے سے یہ فیصلہ سنایا اورآسام کے لئے کٹ آف ڈیٹ 1971 کوقانونی طورپردرست قراردیا۔ اس فیصلے سے آسام کے لاکھوں لوگوں کوراحت ملے گی، جن کے اوپردہائیوں سے شہریت کی تلوارلٹکی ہوئی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کی آئی اے نمبر274/2009 پرفیصلہ سنا تے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ایکٹ آسام معاہدہ کے مطابق ہے، جس کی روسے جوشخص بھی 25 مارچ 1971 سے پہلے آسام میں رہ رہا تھا، وہ اوراس کی اولاد ہندوستانی شہری شمارکی جائے گی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس سندریش اورجسٹس منوج مشرا نے 6 اے کی آئینی حیثیت کے حق میں فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس چندرچوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آسام معاہدہ غیرقانونی پناہ گزینوں کے مسئلے کا سیاسی حل تھا اور اس میں دفعہ 6 اے قانون کے عین مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اس قانون کو دوسرے علاقوں میں بھی لاگوکرسکتی تھی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیوں کہ یہ آسام کے لئے خاص ہے۔عدالت نے مانا کہ 6 اے کے تحت 25 مارچ 1971 کی کٹ آف ڈیٹ بھی درست ہے کیوںکہ آزادی کے بعد ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے مشرقی پاکستان سے آسام میں ہجرت زیادہ ہوئی۔
جمعیۃ علماء ہند اوراس کی ریاستی یونٹ جمعیۃ علماء آسام، صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی قیادت میں پچھلے 15 سالوں سے سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑرہی ہے، کئی ناموروکیلوں نے آسام کے لاکھوں مظلوم انسانوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیروی کی۔ اس مقدمہ کے اول وکیل شکیل احمد سید، کووڈ کے دور میں داغ مفارقت دے گئے، اس کے باوجود جمعیۃ علماء ہند کی جد وجہد کا یہ سفربالآخرکامیابی سے ہمکنارہوا۔ اس فیصلے کے بعد آسام بھرمیں جشن کا ماحول ہے۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی، ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا حکیم الدین قاسمی، قانونی معاملات کے نگراں ایڈوکیٹ نیازاحمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، آسام کے صدرمولانا بدرالدین اجمل قاسمی، ناظم اعلیٰ حافظ بشیراحمد قاسمی، سکریٹری مولانا فضل الکریم، مولانا محبوب حسن اورمولانا عبدالقادرسمیت کئی اہم ذمہ داروں نے اس فیصلے کا استقبال کیا ہے۔
صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند گزشتہ 6 دہائیوں سے آسام کے غریب اورمظلوم انسانوں کے لئے ہر محاذ پرجدوجہد کررہی ہے، یہ فیصلہ جمعیۃ علماء ہند کی جد وجہد میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا اوران لوگوں کوراحت ملے گی، جوشہریت کی امید کھوبیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آسام این آرسی کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں ہم 9 مقدمات لڑرہے ہیں۔ اس سے قبل ایک بڑی کامیابی اس وقت ملی تھی، جب ہماری جد وجہد سے 48 لاکھ خواتین کے لئے پنچایت لنک سرٹیفیکٹ کوتسلیم کیا گیا تھا۔ وہ ایسی خواتین تھیں جن کے دوسرے علاقوں میں شادی ہوگئی تھی، ان کے پاس پنچایت سرٹیفکیٹ کے علاوہ اپنے والدین سے رشتہ ثابت کرنے کا کوئی کاغذ نہ تھا، اس وقت بھی جمعیۃ علماء ہند سبھی مظلوم بہنوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں کھڑی تھی، اس میں مسلم اور غیرمسلم سبھی خواتین شامل تھیں۔ مولانا محمود مدنی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جمعیۃ علماء ہند آگے بھی آسام کے مظلوم انسانوں کے لیے جد وجہد جاری رکھے گی۔ صدرجمعیۃ علماء آسام مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ ہم ان تمام تنظیموں اورافراد کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں، جوکسی بھی طرح اس لڑائی میں شریک رہے اورآسام کے مسلمانوں کی شہریت کے تحفظ کے لئے کوشش کرتے رہے۔
آسا م میں الگ نسلوں کے لوگوں کے ہونے میں کیا غلط ہے؟
چیف جسٹس چندرا چوڑ نے کہا کہ ریاستوں کو بیرونی حملوں سے بچانا حکومت کا فرض ہے۔ آئین کے آرٹیکل 355 کے فرض کو حقوق کے طور پر پڑھنے سے شہریوں اور عدالتوں کو ہنگامی حقوق حاصل ہو جائیں گے جو تباہ کن ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کسی ریاست میں مختلف نسلی گروپوں کی موجودگی کا مطلب آرٹیکل 29(1) کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ درخواست گزار کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ایک نسلی گروپ دوسرے نسلی گروپ کی موجودگی کی وجہ سے اپنی زبان اور ثقافت کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے۔
سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کی دفعہ 6 اے کیا ہے؟
سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کی دفعہ 6 اے بھارتیہ نژاد غیرملکی پناہ گزینوں کوجویکم جنوری 1966 کے بعد لیکن 25 مارچ 1971 سے پہلے بھارت آئے، انہیں بھارت کی شہریت طلب کرنے کا حق دیتی ہے۔ اس دفعہ کو1985 میں آسام معاہدے کے بعد شامل کیا گیا تھا۔ حکومت ہند اورآسام تحریک کے رہنماؤں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا۔ دراصل آسام تحریک کے رہنما بنگلہ دیش سے آسام میں غیرقانونی پناہ گزینوں کونکالنے کا مطالبہ کررہے تھے۔15 اگست 1985 کوآنجہانی راجیوگاندھی کی سربراہی والی مرکزی حکومت، آسام کی صوبائی حکومت اورتحریک چلانے والی تنظیموں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے ” آسام اکورڈ ” کا نام دیا گیا، جس میں یہ طے پایا کہ جولوگ بھی 25،مارچ 1971 سے پہلے آسام میں آگئے تھے خواہ وہ کہیں سے بھی آئے ہوں اورجوبھی ہو ں، ان سب کوہندوستانی تسلیم کیا جائے گا۔ تمام فریقوں نے اس معاہدہ پردستخط کئے اورایک معاملہ حل ہوگیا اوراُس کے بعد مرکزی سرکارنے شہریت ایکٹ 1955 میں ترمیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں بل لاکر سیکشن 6Aکوداخل کیا، جس میں آسام کودیگرریاستوں سے مستثنی کرتے ہوئے وہاں شہریت کے لئے1971کو cut-Off year قراردیا گیا۔ مگر2009 میں ” آسام سنمیلیٹا مہاسنگھا” نامی ایک غیرمعروف تنظیم نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کرکے آسام اکورڈ اورشہریت ایکٹ کے سیکشن 6 اے کوکالعدم قراردینے کی اپیل کی۔ اس تنظیم کی مانگ تھی کہ آسام میں جو لوگ 1950 سے پہلے آئے ہیں صرف ان کوہی ہندوستانی مانا جائے جیسا کہ ملک کی دیگرریاستوں میں یہی پیمانہ ہے۔ جمعیۃ علماء صوبہ آسام نے عدالت عظمی میں اس مقدمہ میں فریق بنتے ہوئے اسے چیلنج کیا اورآسام اکورڈ کوبرقراررکھنے کی مضبوطی کے ساتھ وکالت کی۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے اس مقدمہ کی پیروی سینئروکیل ایم آرشمشاد، دشینت داوے، اندرا جے سنگھ، ایڈوکیٹ منصورعلی خاں، شکیل احمد سید مرحوم (تا وفات 2020) سنجے ہیگڑے، آسام سے عبدالصبورتفادار، مصطفی خدام حسین، نظرالحق مزارکررہے تھے۔