منی پور تشدد کے معاملے پرآج بھی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس دوران سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ نے بڑا سخت تبصرہ کیا اور کہا کہ یہ واضح ہے کہ صورتحال ریاستی پولیس کے قابو سے باہر ہے۔ مئی سے جولائی تک لاء اینڈ آرڈر ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔ عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت پیر (7 اگست) کے لیے مقرر کی ہےاور منی پور کے ڈی جی پی کو ذاتی طور پر حاضر ہو کر سوالات کے جوابات دینے کا حکم دیا ہے۔ کیس سی بی آئی کو سونپنے کے مطالبہ پرسپریم کورٹ نے کہا کہ ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوپا رہی تھی۔ اگر 6000 میں سے 50 ایف آئی آر بھی سی بی آئی کے حوالے کر دی جائیں تو باقی 5950 کا کیا ہوگا؟ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ ویڈیو کیس میں ایف آئی آر درج کرنے میں کافی تاخیر ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس نے خواتین کی برہنہ پریڈ کی ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد ان کے بیانات قلمبند کیے ہیں۔
سالیسٹر جنرل نے کیا کہا؟
سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ ہم نے اسٹیٹس رپورٹ تیار کی ہے۔ یہ حقائق پر مبنی ہے، جذباتی دلائل پر نہیں۔ تمام تھانوں کو ہدایت کی گئی ہےکہ وہ خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات میں فوری طور پر ایف آئی آر درج کریں اور فوری کارروائی کریں۔ انہوں نے کہا کہ 250 گرفتاریاں ہوئیں، 1200 کے قریب حراست میں لیے گئے ہیں۔ ریاستی پولیس نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق ایک ویڈیو کے کیس میں ایک نابالغ سمیت سات افراد کو گرفتار کیا ہے۔
سی بی آئی کام نہیں کر پائے گی
جب اس پورے معاملے کو سی بی آئی کے حوالے کرنے کی اپیل کی گئی تو اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 6500 ایف آئی آر ہیں، لیکن ان میں سے کتنی سنگین جرائم کی ہیں۔ ان کے بارے میں فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس طرح لوگوں کا اعتماد قائم ہوگا۔ اگر 6500 ایف آئی آر سی بی آئی کو دی جاتی ہیں تو سی بی آئی کام نہیں کر پائے گی۔ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ہمیں پہلے کیسز کی درجہ بندی کرنی ہوگی تب ہی ہمیں وضاحت ملے گی۔ اس میں کچھ وقت لگے گا۔
حکومت نے جمعہ تک کا وقت مانگا
مہتا نے کہا کہ جمعہ تک کا وقت دیا جائے۔ سماعت کل ہی ہوئی ہے۔ ہمیں ریاستی حکام سے بات کرنے کا بھی وقت نہیں ملاہے۔ اس دوران اٹارنی جنرل وینکٹرامانی نے کہا کہ اس وقت بھی ریاست میں صورتحال سنگین ہے۔ عدالت میں دوسری طرف سے کہی گئی باتوں کا اثر وہاں بھی ہوگا۔ مہتا نے کہا کہ خواتین کے خلاف جرائم کے 11 کیس سی بی آئی کو سونپے جائیں۔ ہم باقی درجہ بندی عدالت کو دستیاب کرائیں گے۔ اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔
آرڈر لکھتے وقت سی جے آئی نے کہا کہ ہمیں یہ بھی جاننا ہے کہ سی بی آئی کا انفراسٹرکچر کتنا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ کل 6496 ایف آئی آر ہیں۔ 3 سے 5 مئی کے درمیان 150 اموات ہوئیں ہیں ۔ اس کے بعد بھی تشدد جاری رہا ہے۔ 250 افراد کو گرفتار کیا گیا، 1200 سے زائد کو حراست میں لیا گیا۔ 11 ایف آئی آر خواتین یا بچوں کے خلاف جرائم کی ہیں۔ فہرست کو اپ ڈیٹ کرنا ابھی باقی ہے۔
منی پور کے ڈی جی پی کو پیش ہونے کا حکم
سی جے آئی نے کہا کہ سالیسٹر جنرل کے مطابق اب تک سی بی آئی کو سونپی گئی دو ایف آئی آر کے علاوہ ریاستی حکومت 11 کو سی بی آئی کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ پولیس کی کارروائی اب تک سست اور ناکافی ہے۔ ہم ہدایت دیتے ہیں کہ ریاست کے ڈی جی پی ذاتی طور پر حاضر ہوں اور عدالت کے سوالات کے جوابات دیں۔ تمام مقدمات کی درجہ بندی کی جائے اور چارٹ عدالت میں پیش کیا جائے۔
عدالت نے حکومت کی درخواست کو قبول کرلی
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بتایا جائے کہ واقعہ کب ہوا، زیرو ایف آئی آر کب درج ہوئی، کب اسے باقاعدہ ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا، بیانات کب لیے گئے، گرفتاریاں کب ہوئیں، ایف آئی آر میں ملزمان کا نام لیا گیا یا نہیں۔ ہم اس کی بنیاد پر مزید تحقیقات کا حکم دیں گے۔ اس پر سالیسٹر جنرل مہتا نے کہا کہ پیر تک کا وقت دیں۔ اس سے افسران کے ساتھ تفصیلی بات چیت کا وقت ملے گا۔ سی جے آئی نے کہا کہ ٹھیک ہے، پیر کو 2 بجے معاملے کی سماعت ہوگی۔
ریٹائر ججوں کی کمیٹی بناسکتی ہے عدالت عظمیٰ
سی جے آئی نے کہا کہ ہم ہائی کورٹ کے سابق ججوں کی ایک کمیٹی بنا سکتے ہیں جو صورتحال کا جائزہ لے، راحت اور بحالی کے بارے میں تجاویز دے سکے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ گواہوں کے بیانات درست طریقے سے ہو سکیں۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ کس چیز کی چھان بین کرنی ہے۔ تمام کیس سی بی آئی کو نہیں سونپے جا سکتے۔ ایسا نظام بنانا ہو گا کہ تمام کیسز کی تفتیش ہو سکے۔ آپ لوگ اس پر مشورہ دیں۔
غیر قانونی دراندازی کا بھی ذکر کیا گیا
سماعت کے دوران سینئر وکیل رنجیت کمار نے کہا کہ میانمار سے لوگ غیر قانونی طور پر آئے ہیں۔ منشیات کا کاروبار کرتے ہیں۔ سی جے آئی نے کہا کہ لیکن مرنے والے ہمارے لوگ ہیں۔ اس پر مہتا نے کہا کہ زیادہ تر لاشیں جن پر کسی نے دعویٰ نہیں کیا، وہ دراندازوں کی ہیں۔ سی جے آئی نے کہا کہ یہ بھی بتائیں کہ کتنی لاشوں کی شناخت ہوئی ہے۔ مرنے والوں کے نام کیا ہیں؟ ہم جو کمیٹی بنائیں گے وہ معاوضے کے حوالے سے بھی تجاویز دیں گے۔
بھارت ایکسپریس۔