اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی۔ (فائل فوٹو)
سپریم كورٹ كے ذریعے تشكیل دیئے گئے ایکسپرٹ پینل نے اڈانی گروپ کو حال ہی میں کلین چٹ دیا، جس کے بعد کانگریس پارٹی کیلئے کئی اہم سوال پیدا ہوگئے ہیں۔ اس تجزیہ میں ہم ان سوالوں کو اورسب سے قدیم ترین سیاسی جماعت پراس کے اثرات کو سمجھیں گے۔ اڈانی گروپ بھارت کا ایک مشہورکاروباری گروپ ہے،جو سرکاری مہربانی کے الزام کی وجہ سے جانچ کے دائرے میں ہے۔ حالانکہ اہم شخصیات پر مشتمل ایک خصوصی پینل نے اڈانی گروپ کو کلین چیٹ دے دی ہے جس کے بعد کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی پر کئی بڑے سوالات کھڑے ہوئے ہیں ۔
سوال 1: سیاسی حکمت عملی
کانگریس کیلئے اہم سوال یہ ہے کہ خصوصی پینل کے فیصلے کے بعد وہ اپنی سیاسی حکمت عملی کو کیسے ایڈجسٹ کرے گی۔اڈانی گروپ کے خلاف کانگریس پارٹی کا الزام مرکزی سرکار کو نشانہ بنانے کا ایک مضبوط ہتھیار رہا ہے۔ کئی برسوں تک راہل گاندھی کا ہردوسرا خطاب اڈانی گروپ اور پی ایم مودی کے ساتھ گوتم اڈانی کے مبینہ تعلقات پر مرکوز رہا ہے ۔ہنڈن برگ رپورٹ گاندھی پریوار اور کانگریس کے حق میں تھی اور انہوں نے اس کو سرکا رکے خلاف مورچہ بندی کا اہم ذریعہ تصور کیا۔لیکن اب اس کلین چٹ کے بعد کانگریس پارٹی کو اپنے افسانے کا ایک بار پھر جائزہ لینے اور مرکزی سرکاری کو مزید مضبوطی کے ساتھ ہدف تنقید بنانے کیلئے متبادل راستے تلاشنے کی ضرورت ہے۔مہنگئی ،بے روزگاری،نوکری کے مواقع کی کمی اور مستحکم معیشت ایک عام بھارتی کیلئے فکر کا موضوع ہے۔کانگریس کو سرمایہ داروں کو نشانہ بنانے کے بجائے ان مدعوں پر خاص دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
سوال 2: اتحاد کی تعمیر
کانگریس پارٹی اپنی پوزیشن مضبوط کرنےاور حکمراں جماعت کو چیلنج کرنے کیلئے مقامی سیاسی جماعتوں کے ساتھ گٹھبندھن کرنے کی کوشش کررہی ہے،حالانکہ اڈانی گروپ کو کلین چٹ ملنے کے بعد پارٹی کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اڈانی مخالف موقف اس کے سیاسی اتحاد کی کوششوں کو کمزور کرسکتا ہے۔ ہنڈن برگ معاملے میں جب اپوزیشن کی بیشتر جماعتیں جے پی سی کی مانگ کررہی تھیں تب این سی پی چیف شرد پوار نے اپوزیشن کے موقف سے عدم اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ ایک انٹرویو کے دوران شرد پوار پوری مستعدی کے ساتھ اڈانی گروپ کی حمایت میں کھڑے نظرآئے تھے اور اس پورے ایپی سوڈ سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مدعے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔اب عالم یہ ہے کہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی بھی اب اڈانی مخالف بریگیڈ کا حصہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ سیاست الگ چیز ہے اور صنعت الگ۔اگر آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو سبھی کو شامل کرنا ہوگا۔ اس لئے کانگریس کو اپنی بنیادی فکرکو دور کرنے اور ممکنہ شراکت داری کے بیچ توازن بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔
سوال 3: اعتبار اور حقائق کی جانچ
ایکسپرٹ پینل کا فیصلہ کانگریس پارٹی اور پُر اعتماد اور حقائق کی جانچ کے عمل پر سوال اٹھاتا ہے۔ حالانکہ سیاسی جماعتوں کے لئے سوال اٹھانا اور جوابدہی کا مطالبہ کرنا فطری ہے، لیکن یہ یقینی بنانا اہم ہے کہ الزام حقیقی جانکاری پر مبنی ہے۔ کانگریس کو اپنا اعتماد بنائے رکھنے کے لئے درست حقائق جمع کرنے کے لئے اپنے اندر کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنے اندرونی نظام کو مضبوط کرنا چاہئے۔
رافیل سودے سے متعلق الزامات کے معاملے میں کانگریس اورراہل گاندھی کو کافی پریشانی ہوئی تھی۔ سال 2019 میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ہتھیاروں کے سودے میں تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے۔
عدالت کے فیصلے نے کانگریس اورراہل گاندھی کے ذریعہ سخت محنت سے رافیل سے متعلق بنائے گئے ماحول کو گرم ہوا کے غبارے کی طرح پھوڑ دیا تھا۔ رافیل معاملے کے حکم کو غلط طریقے سے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف اپنے “چوکیدار چور ہے” مہم سے جوڑنے کے لئے گاندھی کو عدالت میں غیرمشروط معافی مانگنی پڑی۔ اس لئے کانگریس کوغیرتصدیق شدہ یا غلط حقائق کی بنیاد پر سیاسی مہم چلانا بند کردینا چاہئے۔
سوال 4: پالیسی کا مرکز
اڈانی گروپ کی منظوری کی روشنی میں کانگریس پارٹی کو اپنی پالیسی کا فوکس طے کرنا چاہئے۔ اسے اپنی توجہ دیگراہم مسائل اور پالیسی امور کی طرف موڑنے پر غور کرنا چاہئے، جوعوام سے متعلق ہیں۔ اسے اپنی توجہ ان علاقوں پر مرکوز کرکے جہاں یہ پارٹی مؤثر طریقے سے حکومت کو چیلنج دے سکتی ہے۔ وہیں اپنی مطابقت برقرار رکھتے ہوئے رائے دہندگان سے رابطہ قائم کر سکتی ہے۔
ان سوالات کو حکمت عملی کے ساتھ سمجھ کر کانگریس بدلتے ہوئے منظر نامے میں خود کو تبدیل کرکے ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھر سکتی ہے۔