Bharat Express

Why Amritpal’s continued evasion of arrest becomes a challenge to Amrit-kaal claims?: امرت کال پر داغ نہ بن جائے ’امرت-کتھا‘

پنجاب پھر 80 والے اسی دہائی میں نہ پہنچ جائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ امرت پال کے سرینڈر کرنے یا اس کی گرفتاری کے بعد شفاف جانچ اور فرد جرم کو یقینی بنا کر جلد از جلد اس کی اس کہانی کا ایپیلاگ لکھا جائے۔

April 1, 2023

خالصتانی حامی امرت پال سنگھ۔

کیا خالصتانی حامی مفرورامرت پال سنگھ کی کہانی کسی سسپنس تھری لرسے کم ہے؟ وہ نہ صرف ملک بھرکی پولیس کو چکمہ دے رہا ہے بلکہ سوشل میڈیا پرنئے حالات اور قانون کی حکمرانی کو کھلے عام چیلنج کررہا ہے۔ 18 مارچ کواسے گرفتار کرنے کے لیئ موگا کے کمال کے میں ناکہ بندی کی گئی۔ 8-8 اضلاع کے ایس ایس پی، دو ڈی آئی جی سطح کے افسران اور نیم فوجی دستوں کی کمپنیاں مصروف تھیں، لیکن امرت پال ان کے سامنے سے فرار ہوگیا۔ دو ہفتے قبل جس کام کو پورا کرنے کا ذمہ پنجاب کے آٹھ اضلاع کی پولیس پر تھا، اب 9 ریاستوں کی پولیس مل کر بھی اسے مکمل نہیں کرپا رہی ہے۔ وہ اتراکھنڈ سے لے کر ہماچل پردیش، ہریانہ، اترپردیش، دہلی، مہاراشٹرتک دیکھا گیا ہے اورنہ جانے کہاں کہاں دیکھا گیا ہے۔ یہ تو وہ جگہ ہے جہاں سے اس کا مقام ملا ہے۔ اس کے اتر پردیش کی سرحد عبور کرکے نیپال پہنچنے کی بھی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ ہندوستانی سفارت خانہ کی اپیل پر نیپال کے امیگریشن ڈپارٹمنٹ نے انہیں واچ لسٹ میں ضرور ڈالا، لیکن پرانی تاریخ گواہ ہے کہ نیپال میں اس طرح کی کارروائی کتنی موثرہوتی ہے۔ اب ایک بار پھر یہ بات چل رہی ہے کہ پولیس نے امرتسراور بھٹنڈہ کے ارد گرد سیکورٹی سخت کر دی ہے، کیونکہ امرت پال سنگھ امرتسرکے گولڈن ٹمپل یا بھٹنڈہ میں تخت سری دمدما صاحب میں سے کسی ایک میں داخل ہونے کے بعد ہتھیار ڈال سکتا ہے۔ کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ اگرپولیس کے پاس یہ اطلاع تھی کہ وہ نیپال گیا ہے تو پھر وہ سرحد پار کرکے ہندوستان واپس کیسے آیا؟ سیکورٹی کے تمام دعووں کے درمیان کہ ‘پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا’۔ یہ صرف دو صورتوں میں ممکن ہے یا تو پولیس کے انفارمیشن سسٹم میں خرابی ہے یا پھر اس کا سیکورٹی سسٹم ناکام ہو چکا ہے۔

قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے نے دہشت گرد تنظیموں اور گینگسٹروں کی تحقیقات کے لئے 2022 اور 2023 میں پنجاب میں کئی مقامات پر چھاپہ ماری کی تھی۔ اس وقت امرت پال کو کیوں بخشا گیا، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے جبکہ اس وقت ہمارے گھریلو میڈیا سمیت امریکہ، برطانیہ، کناڈا، جرمنی جیسے ممالک میں بھنڈار والے 2.0 کے طور پر اس کی تاج پوشی کا ڈنکا جم کر پیٹا جا رہا تھا۔ سوالات بہت سارے ہیں؟ جالندھر میں آمنے سامنے کے تصادم میں تین میں سے صرف اسی گاڑی کا بچ کر نکل بھاگنا جس میں امرت پال بیٹھا تھا کیوں محض اتفاق ہے؟ ریاست کی 80 ہزار پولیس کو چکمہ دے کر ایک ملک دشمن کا فرارہوجانا کس کی ‘قابلیت’ کہی جائے گی؟ ناکامی صرف پنجاب پولیس کی ہی نہیں، یہ انٹیلی جنس کے لئے بھی اتنی ہی شرم کی بات ہے کیونکہ جب کوئی مطلوب مجرم ہوتا ہے تو یہ سینٹرل انٹیلی جنس بیورو کی بھی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کا سراغ لگا کرقریبی پولیس اسٹیشن کو اطلاع دے اور اس کی گرفتاری کو یقینی بنائیں۔ بلاشبہ مودی حکومت کی سخت نگرانی اور درست کارروائی کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات اب ماضی کی باتیں ہوچکی ہیں۔ اسی لئے حیرت ہے کہ امرت پال پر انٹلی جنس کیسے چوک کرگئی؟ کامن سینس تو یہی کہتا ہے کہ امرت پال نے جس ملک میں قدم رکھا، اسی دن سے اور خاص طور پر خالصتان کی کھل کر حمایت کرنے کے بعد تو یقینی طورپراسے ملک کے انٹیلی جنس کے رڈار پر ہونا چاہئے تھا اوراین ایس اے کے تحت کیس درج کیا جانا چاہئے تھا۔ 24 فروری کو اجنالا پولیس اسٹیشن پر حملے کے بعد جب بالآخر جب اس پرکارروائی کا فیصلہ کیا گیا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

چہرے بدل کر ملک کے سیکورٹی نظام کو چیلنج دینے والے امرت پال کا اصلی چہرہ کیا ہے؟ گزشتہ سال یوم جمہوریہ پرلال قلعہ پرخالصتانی جھنڈا لہرانے والے دیپ سدھو کی ایک کار حادثے میں موت ہو گئی تھی اورامرت پال ‘وارث پنجاب دے’ تنظیم کی کمان سنبھالنے سے پہلے ہندوستان کیا پنجاب کا عام باشندہ بھی ٹھیک سے نہیں جانتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ دبئی سے متعق اپنے ماضی کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتا ہے، جہاں وہ غیرامرت دھاری تھا اور سکھ مذہبی اصولوں پرعمل نہیں کرتا تھا۔ دبئی میں وہ ڈرگس ڈیلرجسونت سنگھ روڈے سے جڑا ہوا تھا جس کا بھائی پاکستان سے کام کررہا ہے۔ ہندوستان آنے کے بعد، اس نے اچانک ایک مذہبی شدت پسند کے طور پرکام کرنا شروع کر دیا، جو ایک تو اس کی گزشتہ 29 سال کی ​​زندگی کے بالکل برعکس تھا اور دوسرا واضح طوراس خدشہ کو مضبوط کرتا ہے کہ اسے ہندوستان کے مفاد کے لئے مخالف طاقتوں کے ذریعہ لگایا گیا۔

یہ طاقتیں کون سی ہیں؟ اس کی جانکاری کے لئے یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ کون اسے خالصتان کے بہانے ملک میں عدم استحکام پھیلانے کے لئے رسد پانی دے رہا تھا، کون اسے قانون کے شکنجے سے بچا رہا تھا اوراب جب وہ مارا مارا پھررہا ہے تو کون اس کے لئے محفوط ٹھکانے فراہم کررہا ہے؟ امرت پال کو 158 غیرملکی کھاتوں سے فنڈنگ ​​کی اطلاع ہے، جن میں سے 28 کھاتوں سے 5 کروڑ روپئے سے زیادہ کی رقم بھیجی گئی تھی۔ ان کھاتوں کا کنکش پنجاب کے ماجھا اور مالوا سے ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ فیما پرمرکزی حکومت کی سرگرمی اوراس سے جڑی کئی کامیابی کی کہانیوں کے درمیان بھی امرت پال ایک ساتھ اتنے سارے غیرملکی اکاؤنٹس کو کیسے آپریٹ کر رہا تھا؟ کیا اس معاملے کا حوالہ سے متعلق بھی کوئی کنکشن سامنے آئے گا؟ اس کے مددگاروں میں ایک طرف منشیات کے اسمگلر ہیں، جو اپنی کالی کمائی سے اس کی مدد کر رہے ہیں اوردوسری طرف آئی ایس آئی ہے، جو اس تک اسلحہ اور دیگر مدد فراہم کر رہی ہے۔ بیرون ملک میں بیٹھے اس کے آقا الگ سے اسے کروڑوں کی فنڈنگ ​​کر رہے ہیں۔ نشہ مکتی کیندرکی آڑمیں وہ خود کو ہتھیاروں سے لیس کرکے ایک الگ فوج تیارکررہا تھا۔ امرت پال کی ایک خواتین بریگیڈ سے متعلق بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، جوایک طرح سے اس کا سایہ بن کرگھوم رہی ہیں اور جس کی مدد سے ہائی الرٹ ہونے کے باوجود وہ شہر شہر ساری ایجنسیوں کو چکمہ دیتا ہوا گھوم رہا ہے۔ یہ اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ہر بدلتے ٹھکانے پراسے سہارا دینے والی اس کی کوئی خاتون دوست ہی نکلی ہے۔  وہیں سرحد پار کرانے کے لئے آئی ایس آئی کی طرف سے اپنے سبھی سلیپر سیل کو ایکٹیو کرنے کی خبریں بھی ہیں۔ محض ڈھائی ماہ پہلے اس کی بیوی بنی کرن دیپ کور کا بھی ماضی مشتبہ ہے۔ وہ برطانیہ میں رہتی ہے اور خالصتانی حامی ہونے کے ساتھ ہی مبینہ طور پر ببرخالصہ تنظیم کے رابطے میں ہے۔

یقینی طور پر یہ جانکاریاں اہم ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں جمع کرنے میں اب بہت دیرہوچکی ہے۔ امرت پال کا اب تک پکڑ میں نہیں آنا اس کے بڑھتے قد کی طرح اب بڑا سوال بن گیا ہے۔ وہ کھلے عام پنجاب سے لے کر ملک کے لیڈران کو انجام بھگتنے کا چیلنج دے رہا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ اس بات کا ہے کہ پنجاب ایک سرحدی ریاست ہے، جہاں سماجی اور اقتصادی بونڈر پھیلانے کا تمام مصالحہ پہلے سے موجود ہے۔ مین اسٹریم میں سکھوں کے بائیکاٹ کا نیریٹیو، انتہا پسند تارکین وطن اورآئی ایس آئی کی مداخلت پنجاب میں علیحدگی کو پھر ہوا دے سکتی ہے۔ تیزی سے نقصان کا کاروبار بنتی جارہی کھیتی اور اس کے ساتھ ہی کم ہو رہی زرعی زمین کے درمیان بڑھتی بے روزگاری اور سرحد پار سے آرہے ڈرگ کے سبب چیلنج مزید سنگین ہوسکتا ہے۔ پنجاب میں عام رواج ہے کہ فیملی کے ایک شخص کو بیرون ملک بھیجنے کے لئے زمین بیچ دی جاتی ہے۔ پھر جب گھر میں اقتصادی مشکلات آتی ہیں تو مدد بیرون ملک سے آتی ہے اور دھیرے دھیرے فیملی تارکین وطن انتہا پسندوں کے اثر کے تئیں حساس ہوتا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے باقی ہندوستان میں اقلیتوں کے حوالے سے پیدا ہوا خوف بھی کافی کام کرتا ہے۔ قوم کی آر میں پھیلایا گیا یہ نیریٹیو امرت پال جیسے لوگوں کی ’لارجردین لائف‘ والی شبیہ بنانے کے کام آتا ہے، جیسا ہم نے بھنڈرا والے کے معاملے میں بھی دیکھا ہے۔ پنجاب پھر 80 والے اسی دہائی میں نہ پہنچ جائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ امرت پال کے سرینڈر کرنے یا اس کی گرفتاری کے بعد شفاف جانچ اور فرد جرم کو یقینی بنا کرجلد ازجلد اس کی اس کتھا کی ایپیلاگ لکھ دی جائے۔ کیونکہ امرت پال میں ہند کی گورو گاتھا میں داغ ہے یہ امرت کتھا۔

 -بھارت ایکسپریس

Also Read