Bharat Express

Balasore’s Questions Will Not be Solved by Political Ruckus: سیاسی ہنگامہ آرائی سے نہیں حل ہوں گے بالا سور کے سوال

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں بڑھ چڑھ کر وزیر اعظم مودی سے جواب طلب کرنا اور وزیر ریل کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے بیشتر لیڈران کسی نہ کسی وقت ملک کے وزیر ریل رہ چکے ہیں۔

June 10, 2023

بالاسور ٹرین حادثہ میں بڑا جانی ومالی نقصان ہوا۔

بالاسورٹرین حادثہ کے بعد اب متاثرہ ٹریک پربھلے ہی نقل وحمل معمول پرآگیا ہو، لیکن موجودہ صدی کے اس خطرناک ریل حادثے سے متعلق کئی ایسی غیرمعمولی باتیں ہیں، جنہیں معمول پرآنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ سینکڑوں خاندان ایسے ہیں، جنہوں نے اس حادثے میں اپنے رشتہ داروں کو کھودیا ہے، جن کے نقصان کی تلافی ممکن نہیں۔ آنے والا وقت شاید ان کے زخموں پرمرہم رکھے، لیکن جوگزرا وہ ایسے بہت سے سوالات چھوڑگیا ہے جن سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ ریلوے کی حفاظت کے سوال کے ساتھ ساتھ اب اس سوال پربھی توجہ دینے کی ضرورت ہوگئی ہے کہ حکومت چاہے کسی بھی حادثے کے بعد انہیں کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جلد بازی میں حساسیت اورانسانیت کو مدنظررکھتے ہوئے حادثے پر سیاست کرے۔ یہ کتنا مناسب ہے؟

 بالاسورمیں ٹرپل ٹرین حادثہ کے بعد ملک کے سیاسی اپوزیشن نے لال بہادرشاستری اورنتیش کمارکا حوالہ دیتے ہوئے مرکزی حکومت کی جوابدہی اوروزیرریلوے اشونی ویشنوکے استعفیٰ کے مطالبے میں ‘تیزی’ دکھائی، جس کے بعد ایک نئی سیاسی بحث شروع ہوگئی ہے۔ حادثے کے فوراً بعد وزیرریلوے اشونی ویشنو اورمغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کے درمیان ایک تنازعہ کیمرے میں قید ہوگیا، جس میں ممتا بنرجی ہلاک ہونے والے مسافروں کی تعداد 500 بتاتی ہوئی سنی گئیں جبکہ اشونی ویشنو ان کے بیان کو خارج کرتے ہوئے سنئے گئے کہ یہ سیاست کا وقت نہیں ہے۔

اس کے باوجود اس معاملے پرکافی سیاست ہوئی ہے۔ ممتا بنرجی کی اپنی پارٹی ترنمول کانگریس نے اشونی ویشنو کے پاس دو دیگر وزارتیں ہونے پرسوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ ملک میں کوئی کل وقتی ریلوے وزیرکیوں نہیں ہے؟ اس سوال سے تو ایسا مطلب نکلتا ہے کہ جیسے ایک کل وقتی وزیرریلوے کے ہوتے ہوئے ملک میں کبھی کوئی ریل حادثہ نہیں ہوا ہو۔ جانچ پراعتراض کرتے ہوئے شیوسینا کے ادھو گروپ نے یہ بھی کہا ہے کہ مستقبل میں اس حادثے کو ‘خدا کی مرضی’ کہہ کر مجرموں کو بچایا جائے گا، جیسا کہ گجرات کے موربی پل حادثہ میں کیا گیا۔

ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس نے بھی حادثہ کی جانچ سی بی آئی کو سونپنے کے فیصلے کو نریندر مودی حکومت کی اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے نریندر مودی حکومت کی ’ہیڈ لائن مینجمنٹ‘ کی حکمت عملی کا حصہ بتانے میں تاخیر نہیں کی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود ریلوے افسران کا ماننا ہے کہ یہ واقعہ بہت سے معاملات میں مستثنیٰ ہے اوراس واقعے سے متعلق تمام غیرمعمولی سوالات کے جوابات سادہ تفتیش سے تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ واقعے کی بنیادی وجہ الیکٹرانک انٹرلاکنگ سسٹم میں اچانک تبدیلی تھی، جس کی وجہ سے کورومنڈل ایکسپریس پٹری بدل کرلوپ لائن پرکھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی۔ یہ کوئی تکنیکی خرابی نہیں ہے۔ یہ سسٹم کے ساتھ انسانی چھیڑچھاڑ کے بغیرممکن نہیں ہے۔

اگر سی بی آئی کی طرف سے جانچ ہوگی تو اس کے پیچھے کے مقصد کا پتہ چلے گا۔ جانچ میں انسانی اور تکنیکی دونوں پہلوؤں کے ملوث ہونے کا خدشہ بھی اسے سی بی آئی کے لئے موزوں معاملہ بناتا ہے کیونکہ ہندوستان میں بہت سی سرکاری ایجنسیاں اعلی درجے کی تکنیکی تحقیقات کے اہلیت نہیں رکھتی ہیں۔ حیرانی اس بات سے متعلق ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پراستعمال کے باوجود الیکٹرانک انٹرلاکنگ سسٹم کی ناکامی کے چند ہی واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس طرح حادثے کی غیرمعمولی نوعیت نے معاملے کو ایک پیچیدہ تفتیش میں تبدیل کردیا ہے۔ اس لئے اگراس تحقیقات کوعام مہارت رکھنے والی بیوروکریٹک کمیٹی پر چھوڑ دیا جاتا ہے تویہ مسئلہ نہ صرف طویل عرصے تک الجھا رہ سکتا ہے، بلکہ اس مدت تک کے لئے ٹرینوں میں سفر کرنے والے کی جان پر بھی انہونی کی تلوار لٹکی رہ سکتی ہے۔ پھرسی بی آئی کو جانچ سونپنے سے بھی بہت سے دائرہ اختیاراور لال فیتہ شاہی کے موضوع بھی حل ہوجاتے ہیں۔

غور کرنے والی بات ی ہے کہ اس معاملے میں وزیراعظم مودی سے جواب  طلب اوروزیر ریلوے کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے زیادہ تر لیڈرکسی نہ کسی وقت ملک کے وزیر ریلوے رہے ہیں۔ وہ خود بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ کوئی شک نہیں کہ ہرحادثے کا ذمہ دار کوئی نہ کوئی ہوتا ہے، لیکن کیا صرف ایک وزیرکے استعفیٰ سے سسٹم کی خامیاں راتوں رات دور ہوسکتی ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو ہرسسٹم چاق وچوبند ہو جاتا۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو جس طرح سے بالاسورسانحہ حال کی دہائی میں کسی دوسری مثال میں نہیں ملتی۔ اسی طرح اس معاملے میں وزیرریل کا ردعمل بھی بے مثال نظرآتا ہے۔ وہ دیر شام ہوئے حادثہ کی اگلی صبح جائے حادثہ پرموجود تھے اور پھر اس کے بعد فوری راھت اور بچاؤ کام سے لے کر ریل روٹ کو معمول پر لانے تک 50 گھنٹے سے زیادہ وقت تک گراؤنڈ زیرو پر ڈٹے رہے۔ وزیرریلوے کی مسلسل موجودگی کی وجہ سے مختلف اداروں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کا جذبہ بھی برقراررہا۔ حادثے کے 51 گھنٹے کے اندر دونوں ٹریکوں کی جانچ کرلی گئی اور ٹرین کی آپریٹنگ شروع ہوگئی۔ آزاد ہندوستان میں شاید ایسا پہلی بار ہوا جب کوئی وزیر ریل جائے حادثہ پر مسلسل ڈٹا رہے۔ راحت کاموں اور نقصان کی نگرانی کرتا رہے۔ آج جب ملک دھیرے دھیرے اس ریل حادثہ سے ابھر رہا ہے تو اس کے پیچھے اپنے فرائض نبھانے کے لئے وزیر ریل کی لگن کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟

لیکن ساتھ ہی محفوظ سفر کے ان سوالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو اس حادثے کے بعد ایک بار پھر ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں روزانہ 2.2 کروڑ لوگ کہیں نہ کہیں سفر کر رہے ہیں اور ان میں سے ایک بڑا حصہ ریل سے سفر کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اوسط ہندوستانیوں کے لیے ریل اب بھی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور سب سے سستا ذریعہ آمد و رفت ہے۔ اس اعتماد کو برقرار رکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جس واقعے میں 275 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں، 1000 سے زائد لوگ زخمی ہوئے، اس واقعے کا ذمہ دار کوئی نہ کوئی ہو۔ سوال یہ ہے کہ احتساب کیسے یقینی بنایا جائے؟ اس واقعے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ کیا یہ واقعہ بڑی تبدیلی کی علامت بن جائے گا؟ سب سے پہلے تو اس حادثے کی تفصیلی اور منصفانہ انکوائری ہونی چاہیے۔ انفراسٹرکچر کو کتنا ہی جدید بنایا جائے لیکن اگر حفاظت اور معیار میں بہتری نہ آئی تو اس کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل ریلوے میں ایڈوانس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے جب دو ٹرینوں میں آمنا سامنا ہوتا تھا تو بوگیاں ایک دوسرے کے اوپر چڑھ جاتی تھیں لیکن اب ٹرینوں میں نئی ​​اینٹی کلائمنگ کوچز نصب کر دی گئی ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ خصوصی طور پر اس طرح سے بنائے گئے ہیں۔ جب وہ ٹکراتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے اوپر نہیں چڑھتے ہیں۔ لیکن بالاسور میں یہ دعویٰ کام نہیں آیا۔ اسی طرح گزشتہ سال سے ‘کاوچ’ سسٹم شروع کیا گیا ہے جو صرف سگنل کراسنگ اور تصادم سے بچاؤ کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس میں اگر کسی وجہ سے دو ٹرینیں ایک ہی ٹریک پر آجائیں تو یہ سسٹم محفوظ فاصلے پر بریک لگا کر ٹرین کو خود بخود روک سکتا ہے۔ بالاسور حادثے کے بعد اس نظام کو لے کر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ تاہم، ابھی تک کاوچ سسٹم ملک کے کل 68 ہزار کلومیٹر ریلوے نیٹ ورک میں سے صرف 2.13 فیصد تک پہنچ سکا ہے اور بدقسمتی سے یہ بالاسور روٹ پر دستیاب نہیں تھا۔ سیکیورٹی کا بھی اتنا ہی اہم مسئلہ ریلوے میں ملازمین کی کمی ہے۔ گزشتہ دسمبر میں راجیہ سبھا میں وزیر ریلوے نے بتایا تھا کہ ریلوے میں 3.12 لاکھ نان گزیٹیڈ آسامیاں خالی ہیں، جن میں سے کئی سیکورٹی کے زمرے میں ہیں۔ افرادی قوت کی اس کمی کی وجہ سے لوکوموٹیو پائلٹس کو مقررہ 12 گھنٹے سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ طویل کام کے گھنٹے اور متعلقہ تناؤ بھی ریل حادثات کی ایک بڑی وجہ بنتے ہیں۔

ان میں سے بہت سے سوالات ملک کی سیاسی اپوزیشن نے بھی اٹھائے ہیں، حالانکہ اس کا طریقہ کار اب تنقید کا نشانہ بن چکا ہے۔ بلاشبہ یہ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہو گی، لیکن ایسے وقت میں جب تباہی سے نکلنے کے لیے مشترکہ کوشش اور مجرم کی تلاش ہونی چاہیے، تو ایسے سوالات پوچھ کر اپوزیشن نے خود ہی دکھا دیا ہے۔ اس کی حساسیت اور سیاسی ذمہ داری، اسے کٹہرے میں لایا گیا ہے۔

بھارت ایکسپریس۔