غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سے متعلق امریکہ کا بڑا بیان آیا ہے۔
امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے اب ایک مضبوط تجویزہے، مگرسوال یہ ہے کہ کیا حماس اسے قبول کرے گا یا سابقہ تجاویزکی طرح اسے بھی مسترد کردے گا۔ بلنکن نے وضاحت کی کہ حماس کے پاس جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے، یرغمالیوں کو رہا کرنے اورمزید انسانی امداد پہنچانے کی میزپرایک مضبوط تجویز ہے۔
انٹونی بلنکن نے مزید کہا کہ غزہ کے لئے امداد کی خاطرایک سمندری راہداری کے قیام میں وقت لگے گا۔ یہ امداد کی ترسیل کے لیے زمینی راستوں کا متبادل نہیں۔ غزہ میں امداد کی لوٹ مار کرنے والے بھی موجود ہیں۔ بلنکن نے بتایا کہ جب سمندری راہداری قائم ہوجائے گی توغزہ میں روزانہ 20 لاکھ کھانےکے پیکٹ پہنچائے جا سکیں گے۔ بلنکن نے رفح اور کاریم شالوم کراسنگ کے ذریعے امدادی سامان کی آمد کی توقع ظاہرکی اوراسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ تک امداد پہنچانے کے لئے ممکنہ حد تک دیگرراہ داریوں کو کھولے۔ درایں اثناء اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ اس نے غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں ایک امدادی گودام پر فضائی حملے میں حماس کے ایک رکن “محمد ابوحسنہ” کو ہلاک کر دیا ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ محمد ابوحسنہ حماس کے عسکری ونگ کے جنگی معاونت کے شعبے میں شامل تھا اورحماس کے مختلف یونٹوں کے درمیان سرگرمیوں کو مربوط کرنے کے ساتھ ساتھ حماس کے فیلڈ کارکنوں سے بات چیت اوران کی رہنمائی بھی کرتا تھا۔ بدھ کے روزحماس کی وزارت صحت نے اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی میں 7 اکتوبرکوجنگ کے آغازسے اب تک 73,024 افراد کے زخمی ہونے کے علاوہ غزہ کی پٹی میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 31,272 ہو گئی ہے۔ ان میں زیادہ تر خواتین اوربچے شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیرجیک سلیوان نے منگل کے روزکہا تھا کہ امریکی صدرجوبائیڈن رفح میں ایسے کسی بھی اسرائیلی فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کریں گے، جس سے شہریوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہوں۔ جیک سلیوان نے کہا کہ جوبائیڈن کا خیال ہے کہ خطے میں امن اوراستحکام کا راستہ رفح پر حملہ کرنے میں مضمرنہیں ہے جہاں ڈیڑھ ملین افراد پناہ لئے ہوئے ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔