سوئس حکومت کی جانب سے عوامی مقامات پر چہرے کو ڈھانپنے سے متعلق متنازع قانون (برقع پر پابندی) کا اطلاق یکم جنوری سے ہوگا۔خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق 2021 میں سوئٹرزلینڈ میں ایک ریفرنڈم میں منظور کیے جانے والے اس قانون کی مسلم تنطیموں نے مذمت کی تھی، اس اقدام کا آغاز 2009 میں نئے میناروں کی تعمیر پر پابندی لگانے والے گروپ نے کیا تھا۔سوئس حکومت کی گورننگ فیڈرل کونسل کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اس نے برقع پر پابندی کو عملی طور پر نافذ العمل کرنے کی تاریخ طے کرلی ہے اور جو بھی اس پابندی کی خلاف ورزی کرے گا اس پر ایک ہزار سوئس فرانک (1144 ڈالر) تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چہرہ ڈھانپنے کی اجازت صحت اور حفاظت سے متعلق وجوہات، مقامی رسم و رواج یا موسمی حالات کی وجہ سے بھی رہے گی۔ اس کے علاوہ فنکارانہ اور تفریحی بنیادوں پر یا اشتہارات کے لیے بھی اجازت ہوگی۔علاوہ ازیں اگر اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی کو استعمال کرنے میں ذاتی تحفظ کے لیے چہرہ ڈھانچے کی ضرورت ہو، تو اس کی اجازت دی جانی چاہیے بشرط کہ ذمہ دار اتھارٹی پہلے ہی اس کی منظوری دے چکی ہو تاکہ امن عامہ میں خلل پیدا نہ ہو۔سوئس حکومت نے گزشتہ برس ایک ریفرنڈم کے بعد ملک میں برقع پہننے پر پابندی عائد کی تھی، ریفرنڈم میں 51.2 فیصد رائے دہندگان نے برقع پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
اس قانون کے تحت مسلم خواتین پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی مقامات پر اپنے چہروں کو نہیں ڈھانپ سکتیں تاہم وہ اسکارف پہن کر اپنے بالوں اور سر کو کور کرنے کی اجازت ہے جبکہ کورونا کی وجہ سے ماسک پہننے والوں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔سوئٹزرلینڈ میں فیڈریشن آف اسلامک آرگنائزیشنز کا کہنا ہے کہ آئین میں ڈریس کوڈز درج کرنا ماضی میں ایک قدم واپس جانے جیسا ہے اور یہ خواتین کی آزادی کی جدوجہد نہیں ہے، اس اقدام سے رواداری اور امن قائم کرنے کی سوئس اقدار کو نقصان پہنچایا گیا۔
بھارت ایکسپریس۔