Bharat Express

Protesters vandalise statue of Sheikh Mujibur Rahman: ڈھاکہ میں مظاہرین نے شیخ مجیب الرحمان کا توڑا مجسمہ، سڑکوں پر تقریباً چار لاکھ مظاہرین کا ہنگامہ جاری

اس سے قبل قوم سے اپنے خطاب میں بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل باقر الزماں نے اعلان کیا کہ شیخ حسینہ نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور ملک کو چلانے کے لیے جلد ہی عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی۔

مظاہرین نے شیخ مجیب الرحمان کا توڑا مجسمہ

نئی دہلی: شیخ حسینہ کی جانب سے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے اور ملک سے فرار ہونے کی خبر کے بعد طلباء کی قیادت میں مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ ‘گن بندھن’ پر دھاوا بول دیا۔ مظاہرین نے ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کی سابق صدر اور شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے کو بھی توڑ پھوڑ کی۔ مقامی میڈیا کے مطابق ڈھاکہ کی سڑکوں پر تقریباً چار لاکھ مظاہرین موجود ہیں۔

اس سے قبل قوم سے اپنے خطاب میں بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل باقر الزماں نے اعلان کیا کہ شیخ حسینہ نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور ملک کو چلانے کے لیے جلد ہی عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی۔ جنرل باقر الزمان نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ بنگلہ دیشی فوج پر اعتماد برقرار رکھیں اور کہا کہ سیکورٹی فورسز آنے والے دنوں میں ملک میں امن کو یقینی بنائیں گی۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ وہ جلد ہی صدر محمد شہاب الدین سے ملاقات کریں گے۔

یہ پیش رفت اتوار کے روز پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد کے ہلاک اور 1000 سے زیادہ زخمی ہونے کے بعد سامنے آئی ہے۔ بنگلہ دیش کے معروف اخبار ’ڈیلی اسٹار‘ نے رپورٹ کیا، ’’تین ہفتوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 300 سے تجاوز کر گئی ہے۔ شہری تحریکوں کے دوران بنگلہ دیش کی تاریخ کا یہ خونی ترین دور ہے۔‘‘

طلبہ کی زیرقیادت عدم تعاون کی تحریک نے گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران وزیر اعظم حسینہ کی قیادت والی حکومت پر شدید دباؤ ڈالا ہے۔ طلباء 1971 میں خونریز خانہ جنگی میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کے لیے لڑنے والے آزادی پسندوں کے رشتہ داروں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 30 فیصد ریزرویشن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے ریزرویشن کو گھٹا کر پانچ فیصد کرنے کے بعد طلبہ لیڈران نے احتجاج روک دیا۔ لیکن مشتعل مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کے تمام لیڈران کی رہائی کے مطالبات کو نظر انداز کیا، جس کے بعد انہوں نے دوبارہ احتجاج شروع کر دیا۔

بھارت ایکسپریس۔