ایران کی وزارت خارجہ نے علی رضا عنایتی کو سعودی عرب میں اپنا سفیر مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کی بحالی کے ضمن میں ایک اور پیش رفت کی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 10 مارچ کو بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران نے 2016 سے منقطع تعلقات کو دوبارہ شروع کرنے اوردوماہ کے اندردونوں سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
ریاض نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ معاہدہ سفارتی تعلقات کی بحالی کی بنیاد پر کیا گیا ہے اور دونوں اطراف کی خواہش بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنا ہے۔ معاہدے کے بعد تینوں ممالک کی طرف سے ایک سہ فریقی بیان جاری کیا گیا تھا جس میں ہر ملک کی خودمختاری اور داخلی امور میں عدم مداخلت کے علاوہ دونوں ممالک میں سفیروں کی تقرری کو فعال کرنے اور تعلقات کو بہتر بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے امور خارجہ کے وزیروں کی میٹنگ کے انعقاد کے ساتھ ساتھ معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، سائنس، ثقافت، کھیل اور نوجوانوں کے شعبوں میں تعاون کے لیے 1998 میں دستخط کیے گئے عمومی معاہدے کو فعال بنانے پر زور دیا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ یہ کئی ماہ کے خفیہ سفارتکاری کے بعد 6 مارچ کو ایرانی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سکریٹری اور سعودی قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان بیجنگ میں مذاکرات شروع ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ ایران اور سعودی کے درمیان تعلقات اس سے پہلے بھی 1944 میں ایک ایرانی باشندے کو سعودی عرب میں سزائے موت دینے کے بعد منقطع ہو گئے تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ تعلقات بحال ہونے میں کافی عرصہ لگ گیا تھا اور بالآخر 1960 میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحال ہوئے تھے۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ 1979 مین ایرانی انقلاب، 1987 میں حج کے دوران بھگدڑ میں ایرانی عازمین حج کی موت اور 2011 میں شیعہ اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے کے وقت دیکھے گئے ہیں۔ 2016 کی کشیدگی کا سبب سعودی عرب کے ذریعہ شیعہ عالم دین شیخ نمر کا قتل اور اس کے بعد ایران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ تھا۔
- -بھارت ایکسپریس