Pak Gets Support From India At UNHRC Against Quran Burning: مدتوں بعد ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ پاکستان کے کسی قدم کو بھارت کا ساتھ مل رہا ہو ۔ دراصل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان اور اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے ایک قرار داد پیش کی گئی تھی جس میں مذہبی منافرت اور سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کے معاملے پر بحث ہوئی اور بحث کے بعد ووٹنگ کے ذریعے قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔ ووٹنگ کے دوران قرارداد کے حق میں 28 ممالک نے ووٹ دیا، 12 نے مخالفت کی جبکہ سات ممالک نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔اس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت نے بھی پاکستان کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ۔
بھارت نے اس وجہ سے مخالفت یا غائب رہنے کا قطعی فیصلہ نہیں کیا کہ یہ قرار داد پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی ہے بلکہ بھارت نے انسانیت اور آزادی اظہار کو بنیاد بنا کر ووٹ کرنے کا فیصلہ کیا ۔جس پر اب نئے انداز میں بحث ہورہی ہے کہ کیا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کا تعطل اس کے سہارے ختم ہونے کی شروعات ہوسکتی ہے؟ خیر یہ معاملہ ابھی بہت پیچیدہ معلوم پڑتا ہے۔ البتہ بھارت نے ایک ذمہ دار اور انسانیت نواز ملک ہونے کا حق ادا کردیا ہے۔
وہیں دوسری جانب اس قرارداد کی امریکہ اور یورپی یونین نے مخالفت کی، جن کا کہنا ہے کہ یہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے بارے میں ان کے نقطہ نظر سے متصادم ہے۔کونسل برائے انسانی حقوق کے ہنگامی اجلاس میں منگل کو سویڈن میں قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے پر بحث ہوئی تھی جس میں پاکستان، سعودی عرب اور ایران سمیت دیگر اسلامی ممالک نے مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کو مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے جوابدہی کا مطالبہ کیا تھا۔پاکستان کی قرارداد کے مسودے میں مذہبی منافرت کے تمام مظاہر کی مذمت کی گئی ہے اور ذمہ داروں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
اس قرار داد میں ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ’مذہبی منافرت کی کارروائیوں اور حمایت سے نمٹنے، اسے روکنے اور ان پر مقدمہ چلانے کے لیے قوانین اپنائیں جو کہ امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد پر اکسانے کے مترادف ہیں اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کونسل برائے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک منگل کو ہوئی بحث کی روشنی میں ممالک کے قوانین میں خامیوں کی نشاندہی کریں۔ کونسل میں قرارداد پر منگل کو بحث کے بعد امریکہ، برطانیہ سمیت یورپی ممالک نے قرآن کو نذر آتش کرنے کی مذمت کرتے ہوئے ووٹنگ سے خود کو باہر کر لیا تھا جبکہ لندن اور واشنگٹن نے کہا کہ اگر وہ ووٹ کرتے تو قرارداد کے مسودے کے خلاف کرتے۔
وہیں دوسری جانب ایران، سعودی عرب اور انڈونیشیا کے وزرا کی طرف سے اس کی حمایت کی گئی اور اسے ’اسلام فوبیا‘ کا فعل قرار دیا گیا۔ جرمنی کی سفیر کیتھرینا سٹاش نے قرآن نذر آتش کرنے کے عمل کو ’خوفناک اشتعال انگیزی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کا مطلب بعض اوقات ایسی رائے کو برداشت کرنا بھی ہوتا ہے جو تقریباً ناقابل برداشت لگتی ہیں۔ فرانس کے ایلچی نے کہا کہ انسانی حقوق لوگوں کے تحفظ سے متعلق ہیں نہ کہ مذاہب اور ان کی علامتوں کے متعلق ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کونسل کو بتایا کہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب یا اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیاں ’جارحانہ، غیر ذمہ دارانہ اور غلط‘ ہیں۔ پاکستانی سفیر خلیل ہاشمی نے کہا کہ افسوس کے ساتھ، کچھ ریاستوں نے مذہبی منافرت کی لعنت کو روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہونے کا انتخاب کیا ہے۔ دنیا بھر کے اربوں عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ایک پیغام بھیجا گیا ہے کہ مذہبی منافرت کو روکنے کے لیے ان کا عزم محض زبانی جمع خرچ ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرار داد کے الفاظ مذہبی منافرت کے تمام مظاہر کی مذمت کرتے ہیں، بشمول “قرآن پاک کی بے حرمتی کی عوامی اور منصوبہ بند کارروائیاں”، اور ذمہ داروں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس میں ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ “ایسی کارروائیوں اور مذہبی منافرت کی وکالت جو امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد کے لیے اکساتی ہیں، سے نمٹنے، روکنے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے” کے لیے قوانین اپنائے۔انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے حقوق کونسل کے سربراہ وولکر ترک سے قراردادیہ بھی چاہتا ہے کہ وہ اس کی روشنی میں ممالک کے قوانین میں موجود خامیوں کی نشاندہی کریں۔
بھارت ایکسپریس۔