غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اسرائیلی جنگ کی صورت غزہ میں گزرنے والے اس سال کا ہر لمحہ غزہ کے معصوم شہریوں کے لہو سے لا ل ہوتا رہا۔شاید ہی اس ایک سا ل میں کوئی صبح یا کوئی شام ایسی گزری ہوجب معصوم فلسطینیوں کے خون سے اس سرزمین کو سیراب نہ کیا گیا ہو۔غزہ جنگ نہتے اور زیر محاصرہ فلسطینیوں کے خلاف طویل ترین جنگ کا ریکارڈ بھی ہے اور اسرائیلی جنگی جرائم کی بدترین مثالوں کا حوالہ بھی۔یہ جنگ نسل کشی کی جیتی جاگتی اور متحرک مثال بھی ہے اور غیر علانیہ عالمی جنگ کے پرانے اتحادیوں کی ایک نئی لام بندی بھی۔غزہ کی پٹی دنیا کا سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے۔ 365 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ساحلی پٹی 24 لاکھ افراد کا مسکن ہے، جہاں ایک مربع کلومیٹر رقبے میں ساڑھے پانچ ہزار افراد رہائش پذیر ہیں۔
غزہ کی آبادی جنگ کے آغاز سے قبل لگ بھگ 24 لاکھ تھی جس میں سے 80 فی صد سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔خیال رہے کہ غزہ کی عسکری تنظیم حماس اور لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کو امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین سمیت ان کے بیشتر اتحادی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔غزہ کی جنگ کے حوالے سے اسرائیلی فوج کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس نے ایک سال کے اندر غزہ کی پٹی میں 40 ہزار سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا، راکٹ داغنے کے ایک ہزار مقامات تباہ کر دیے اور سرنگوں کے 4700 دہانے دریافت کر لیے۔
بیان کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے اب تک 726 اسرائیلی فوج ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں 380 فوجی سات اکتوبر کو شروع ہونے والی عسکری مہم میں اور 346 فوجی 27 اکتوبر 2023 کو غزہ کے اندر شروع ہونے والی لڑائی میں مارے گئے۔ اس کے علاوہ ایک سال کے اندر 4576 فوجی زخمی بھی ہوئے جب کہ 56 فوجی عسکری کارروائیوں کی انجام دہی کے دوران میں مختلف واقعات میں پیش آئے۔جہاں تک اقتصادی خسارے کا تعلق ہے تو اسرائیل کی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق رواں سال اگست تک غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کی براہ راست لاگت 100 ارب شیکل (26.3 ارب ڈالر) تک پہنچ چکی ہے۔ بینک آف اسرائیل کے اندازے کے مطابق 2025 کے اختتام تک اس لاگت کا حجم 250 ارب شیکل تک پہنچ جائے گا۔واضح رہے کہ یہ اندازہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جنوبی لبنان میں داخل ہونے کی تیاری سے قبل وضع کیا گیا تھا۔ لبنان میں فوجی کارروائی سے مجموعی لاگت میں اضافہ ہو جائے گا۔
بھارت ایکسپریس۔