امریکی صدرجوبائیڈن نے غزہ میں اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہوکی پالیسی کو “غلط” قراردیتے ہوئے اسرائیل پرزوردیا کہ وہ جنگ بندی کا اعلان کرے۔ انہوں نے یہ بات منگل کے روزایک انٹرویومیں کہی۔ حماس کے خلاف اسرائیلی جنگ اورغزہ کے اندرمشکل حالات کی وجہ سے شہریوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے پربڑھتے ہوئے تناؤکے تناظر میں بائیڈن کے تبصرے نیتن یاہوپراب تک کی ان کی سخت ترین تنقید میں شامل ہیں۔
صدر بائیڈن نے امریکی ہسپانوی زبان کے نیٹ ورک “یونی ویژن” کوانٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ “میرے خیال میں وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ غلط ہے۔ میں ان کے نقطہ نظر سے متفق نہیں ہوں”۔ بائیڈن نے انٹرویو کے دوران اس بات کا اعادہ کیا کہ گذشتہ ہفتے غزہ میں اسرائیلی حملے میں سات امدادی کارکنوں کی ہلاکت “خوفناک” واقعہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “میں جس چیز کا مطالبہ کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اسرائیلی صرف جنگ بندی کا مطالبہ کریں اور اگلے چھ یا آٹھ ہفتوں کے دوران غزہ میں داخل ہونے والی تمام خوراک اور ادویات تک مکمل رسائی کی اجازت دیں”۔
جنگ بندی کے حوالے سے بائیڈن کے بیانات ان کے پچھلے بیانات سے ایک تبدیلی کی اشارہ ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر رضامندی کا بوجھ حماس پر پڑتا ہے۔ بائیڈن نے اسرائیل پر غزہ میں مزید امداد کی اجازت دینے کے لیے اپنا دباؤ بھی بڑھا دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “غزہ کے لوگوں کی خوراک اور ادویات کی ضروریات فراہم نہ کرنے کا کوئی عذر نہیں ہے”۔ انٹرویو میں غزہ میں “گلوبل سینٹرل کچن” کے امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے بعد سے اسرائیل کے بارے میں بائیڈن کی پالیسی میں بڑی تبدیلی کو ظاہر کیا گیا ہے۔
امریکی پالیسی میں تبدیلی کی دھمکی
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے منگل کے روز کہا تھا کہ جب تک اسرائیل غزہ میں اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا واشنگٹن اسرائیل کے ساتھ اپنی پالیسی تبدیل کرے گا۔ سلیوان نے العربیہ اور الحدث کو بتایا کہ “اگر اسرائیل کی پالیسی مستقل بنیادوں پر تبدیل نہیں ہوتی ہے تو ہماری پالیسی بدل جائے گی”۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں شہریوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے اضافی اقدامات کرے گا”۔ دریں اثناء وائٹ ہاؤس نے کہا کہ غزہ کے شہر رفح میں منصوبہ بند آپریشن کے حوالے سے اسرائیلی اور امریکی حکام کے درمیان براہ راست مذاکرات دو ہفتوں کے اندر ہوں گے۔
’’حماس کا موقف حوصلہ افزا نہیں‘‘
سلیوان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حماس کی جانب سے اب تک غزہ میں امن اور قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے جو موقف جاری کیا گیا ہے وہ “حوصلہ افزا نہیں” ہے۔ انھوں نے کہا کہ “ہم نے حماس کی طرف سے جاری کیے گئے عوامی بیانات کو دیکھا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ حوصلہ افزا سے کم ہیں”۔ تاہم سلیوان نے کہا کہ انہوں نے منگل کی صبح قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن آل ثانی کے ساتھ بات چیت کی، جس نے اشارہ کیا کہ انہیں “حماس کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے”۔ سلیوان کے مطابق مصری، امریکی اور قطری ثالثوں کے ذریعے اسرائیلی حکومت اور حماس کے نمائندوں کی موجودگی میں اتوار کو قاہرہ میں منعقدہ ایک “میراتھن” اجلاس کے دوران حماس کو یہ تجویز پیش کی گئی۔