داعش کے سابق سربراہ ابوبکر البغدادی کو پوری دنیا جانتی ہے۔ بغدادی نے جس انداز میں شام اور عراق میں انسانیت کا خون کیا اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے امریکی اور اسرائیلی مشینری کے طور پر کام کیا ،اس کے کالے کارنامے پوری دنیا کے سامنے ہیں ،البتہ ان دنوں ایک بار پھر بغدادی زندہ ہوگیا ہے چونکہ اس کی بیوی نے ایک خبررساں ایجنسی کو انٹرویو دیا ہےاور بغدادی کی حقیقت بتائی ہے۔اُمِ حذیفہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے سابق سربراہ ابوبکر البغدادی کی پہلی بیوی ہیں اور وہ اس وقت بھی ان کے نکاح میں تھیں جب شام اور عراق کے بڑے حصے پر اس گروہ کا قبضہ تھا۔اب وہ ایک عراقی جیل میں قید ہیں جہاں ان کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہونے جیسے الزامات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
گزشتہ روزایک نیوز ایجنسی نے جیل میں قید اُمِ حذیفہ کا انٹرویو کیا ہے۔ 2014 کے موسمِ گرما میں وہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے گڑھ سمجھے جانے والے شامی شہر رقہ میں اپنے شوہر ابوبکر الغدادی کے ساتھ رہائش پزیر تھیں۔چونکہ ابوبکر البغدادی ایک انتہا پسند گروہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی مطلوب سربراہ تھے اس لیے انھیں خود کو بچانے کے لیے متعدد مقامات پر رہنا پڑتا تھا۔ایسے ہی ایک وقت میں ابوبکر البغدادی نے اپنے ایک محافظ کو اپنے گھر بھیجا تاکہ وہ ان کے دو بیٹوں کو ان کے پاس لا سکے۔اُمِ حذیفہ نے بتایا کہ ’انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ لوگ سیر پر جا رہے ہیں جہاں بچوں کو تیراکی سکھائی جائے گی۔اُمِ حذیفہ کے گھر پر ایک ٹی وی بھی تھا جو وہ چُھپ کر دیکھا کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہ ٹی وی کھول لیا کرتی تھی جب وہ (ابوبکر البغدادی) گھر پر نہیں ہوتے تھے۔
ان کے مطابق ان کے شوہر نے انھیں حقیقی دُنیا سے بالکل کاٹ کر رکھ دیا تھا، ابوبکر البغدادی انھیں ٹی وی دیکھنے دیتے تھے اور نہ ہی 2007 کے بعد سے انھیں موبائل فون سمیت کسی بھی قسم کی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔محافظ کے بچوں کو لے جانے کے کچھ دنوں بعد جب اُمِ حذیفہ نے اپنا ٹی وی کھولا تو انھیں ایک ’بڑا سرپرائز‘ ملا۔ انھوں نے اپنے شوہر کو عراقی شہر موصل کی نوری مسجد میں بطور نام نہاد اسلامی خلافت کے سربراہ خطاب کرتے ہوئے دیکھا۔کچھ دن پہلے ہے ان کے گروہ سے منسلک جنگجوؤں نے موصل پر قبضہ کیا تھا۔برسوں بعد دنیا نے ابوبکر البغدادی کی پہلی جھلک اسی ویڈیو میں دیکھی تھی۔ ان کے چہرے پر لمبی داڑھی تھی، جسم پر سیاہ جبہ پہنا ہوا تھا اور وہ مسلمانوں سے اطاعت کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔یہ وہ لمحہ تھا جسے دنیا بھر میں دیکھا گیا اور اس وقت نام نہاد دولتِ اسلامیہ عراق اور شام کے بڑے حصے پرقبضہ کر چکی تھی۔
اُم حذیفہ کہتی ہیں کہ وہ یہ جان کر حیران رہ گئیں کہ ان کے بیٹے دریائے فرات میں تیراکی سیکھنے کے بجائے موصل میں موجود ہیں۔یہ تمام مناظر اُمِ حذیفہ بغداد کے ایک پُرہجوم جیل میں بیان کر رہی تھیں، جہاں ان کے خلاف نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی جانب سے کیے گئے جرائم اور ان کے کردار کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔اس جیل میں کافی شور سُنا جا سکتا ہے جہاں منشیات کے استعمال اور جسم فروشی سمیت دیگر جرائم میں ملوث افراد اور باہر سے کھانے پینے کا سامان بھی لایا جا رہا ہے۔ہم نے جیل کی لائبریری میں ایک خاموش مقام ڈھونڈا اور اُمِ حذیفہ سے تقریباً دو گھنٹے گفتگو کی۔ ہماری بات چیت کے دوران انھوں نے خود کو بطور ایک متاثرہ خاتون پیش کیا، جس نے کئی مرتبہ اپنے شوہر سے فرار ہونے کی کوشش بھی کی۔ وہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی متشدد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بھی تردید کرتی ہیں۔
تاہم ان کا مؤقف یزیدی برادری کی طرف سے دائر کیے گئے عدالتی کیس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یزیدی خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے اراکین کی جانب سے اغوا کیا گیا اور جنسی غلام بنایا گیا اور ان کا الزام ہے کہ اُمِ حذیفہ لڑکیوں اور خواتین کو جنسی غلام بنانے کے عمل میں ملوث تھیں۔انٹرویو کے دوران اُمِ حذیقہ نے ایک بھی بار اپنا سر نہیں اُٹھایا۔ وہ سیاہ لباس پہنے ہوئی تھیں جس میں صرف ان کے چہرے کا کچھ حصہ نظر آ رہا تھا۔اُمِ حذیفہ سنہ 1976 میں عراق کے ایک تنگ نظر خاندان میں پیدا ہوئیں تھیں اور سنہ 1999 میں انھوں نے ابراہیم عواد البدری (ابوبکر البغدادی) سے شادی کی۔
بھارت ایکسپریس۔