اٹلی اور ایران کے درمانن سفارتی کشدوگی بڑھی۔
روم: اٹلی اور ایران کے درمیان اس وقت سفارتی تعلقات میں کشیدگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اطالوی صحافی کی گرفتاری سے کشیدگی کی شروعات ہوئی، حالانکہ یہ سارا واقعہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس تنازعہ میں ایک تیسرا ملک امریکہ بھی شامل ہے جس کی وجہ سے یہ واقعہ تین ملکی سفارتی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اٹلی نے جمعرات کے روز ایرانی سفیر کو طلب کرکے ایک اطالوی صحافی کی رہائی کا مطالبہ کیا جب کہ تہران نے اٹلی سے ایک ایرانی شہری کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ایران نے جس شخص کی رہائی کا مطالبہ کیاوہ اردن میں ڈرون حملے کے الزام میں امریکی وارنٹ پر اٹلی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک سال قبل ہوئےاس حملے میں تین امریکی مارے گئے تھے۔
آئیے جانتے ہیں کہ تینوں ممالک سفارتی محاذ پر کیسے آمنے سامنے آگئے:-
اس پیش رفت کی شروعات 16 دسمبر کو ہوئی، جب امریکی محکمہ انصاف نے مبینہ طور پر ایران کو ڈرون ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے لیے دو ایرانی شہریوں کے خلاف الزامات کا اعلان کیا۔ جنوری 2024 میں اردن میں امریکی پوسٹ پر حملے میں مبینہ طور پر ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا، جس میں تین امریکی فوجی مارے گئے تھے۔
مشتبہ افراد میں سے ایک محمد عابدینی کو میلان کے مالپینسا ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاری امریکی حوالگی کے وارنٹ پر عمل میں آئی۔ تین دن بعد، روزنامہ ال فوگلیو کی اطالوی رپورٹر سیسیلیا سالا کو تہران میں حراست میں لیا گیا۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA نے اطلاع دی ہے کہ وہ 13 دسمبر کو ایک صحافی ویزا پر ملک میں داخل ہوئی تھی اور اسے اسلامی جمہوریہ کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جب ایرانی سفیر کو جمعرات کے روزاطالوی وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا تو روم اور تہران نے اپنے عوامی بیانات میں دونوں معاملات کا ذکر کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاملے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، کیونکہ ہر ملک اپنے شہری کی رہائی چاہتا ہے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ ان کے زیر حراست شہری پر غلط الزام لگایا جا رہا ہے۔
اٹلی میں ایرانی سفارت خانے نے سفیر محمد رضا صبوری اور اطالوی وزارت خارجہ کے سکریٹری جنرل ریکارڈو گاریگلیا کے درمیان ہونے والی ملاقات کو دوستانہ قرار دیا۔ لیکن ٹویٹر پر ایک بیان میں، سفارت خانے نے کہا کہ عابدینی کو ’جھوٹے الزامات‘ کے تحت حراست میں لیا گیا تھا اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس ٹویٹ کو امریکی معاملے پر تہران کا پہلا عوامی ردعمل قرار دیا جا رہا ہے۔ سفارت خانے نے زور دیا کہ سالا کے ساتھ انسانی سلوک کیا جا رہا ہے، خاص کر کرسمس اور نئے سال کی تعطیلات کے پیش نظر۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اطالوی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حراست میں لیے گئے ایرانی شہری کی رہائی میں تیزی لانےکے علاوہ اسے ضروری سامان بھی فراہم کیا جائے گا۔‘‘
امریکی استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ عابدینی کی تہران میں قائم کمپنی ایران کے نیم فوجی پاسداران انقلاب کے فوجی ڈرون پروگرام کے لیے نیوی گیشن سسٹم بناتی ہے۔
ایران میں 1979 کے امریکی سفارت خانے کے بحران کے بعد سے، (جس میں درجنوں امریکی یرغمالیوں نے 444 دن تہران میں قید میں گزارے)، ایران نے اکثر مغربی ممالک سے جڑے قیدیوں کو مذاکرات میں سودے بازی کے لیے استعمال کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اطالوی مبصرین کا قیاس ہے کہ تہران سالاکو حراست میں لے کر عابدینی کی رہائی چاہتا ہے۔
جمعرات کو بھی، اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے سالا اور عابدینی کے معاملے پر تبادلہ خیال کے لیے اطالوی انصاف اور وزرائے خارجہ کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ بلائی۔ انہوں نے اطالوی رپورٹر سالا کی ماں سے خصوصی ملاقات کی۔
ایک بیان میں، میلونی کے دفتر نے کہا کہ حکومت نے سالا کی فوری رہائی اور اس دوران ’انسانی وقار کا احترام کرنے والے سلوک‘ کے لیے اپنی اپیل کا اعادہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے گایا ’دوستی کا ترانہ‘،نئی دہلی سے بہتر تعلقات کیوں چاہتا ہے اسلام آباد ؟
عابدینی کے حوالے سے، حکومت نے پھر سے تصدیق کی کہ ’’اطالوی قوانین اور بین الاقوامی کنونشنوں کی تعمیل میں سب کے ساتھ یکساں سلوک کی ضمانت جاتی ہے۔‘‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس پورے معاملے پر ابھی تک امریکہ کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔